حجاب ’’پسند‘‘ کا معاملہ

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

حجاب کا اہتمام کریں یا نہ کریں ،یہ ایک سوال ہے۔اس سوال کا جواب سپریم کورٹ کے دو عزت مآب ججس نے دیا لیکن 13 اکتوبر کو دن کے اختتام پر صرف دو امکانات تھے جواب نہیں جس کے نتیجہ میںمَیں عیشیت شفاء اور مس تحرینہ بیگم گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج کنڈا پورہ میں اپنی تعلیم جاری رکھنے سے قاصر رہے۔ واضح رہے ان دونوں طالبات کی پیدائش بھی کرناٹک کے ضلع اڈوپی کے کنڈا پورہ میں ہی ہوئی اور وہیں بڑی ہوئیں۔ دونوں طالبات سال دوم میں زیرتعلیم ہیں۔ گزشتہ سال سے جب وہ کالج میں داخلہ حاصل کئے تب سے وہ حجاب کا اہتمام کرتی ہیں یعنی وہ سر پر اسکارف پہنا کرتی تھیں۔ اسکارف سر سے لے کر گردن تک ہوتا ہے اور چہرہ کھلا رہتا ہے۔ اسکولوں و کالجس میں جو یونیفارم ہوتا ہے، حجاب (اسکارف) اس کے علاوہ (اضافی) ہوتا ہے۔
بہرحال 3 فروری 2022ء کو عیشیت اور تحرینہ کو کالج کے باب الداخلہ پر ہی روک دیا گیا اور کہا گیا کہ کالج میں داخل ہونے سے قبل حجاب نکال دیں، لیکن دونوں لڑکیوں نے حجاب نکالنے سے انکار کردیا جس پر انہیں کالج میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی اور 8 ماہ سے وہ اسی مسئلہ سے دوچار ہیں۔
اگر کوئی خاتون حجاب کا اہتمام کرتی ہے تو اس سے کسی کو کوئی تکلیف یا پریشانی نہیں ہوتی۔ یہ نظم و ضبط، شائستگی، اخلاقیات یا صحت کیلئے بھی مضر نہیں ہے۔ اگر مذہب سے بالاتر ہوکر دیکھیں تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ایک خاتون جس قسم کے حجاب کا اہتمام کرتی ہے وہ ہندوستان میں اپنے سر پر ساری کا پلو یا دوپٹہ اوڑھنے والی خواتین سے مختلف نہیں یعنی اسکارف اور ساری کے پلو یا ڈوپٹہ میں کوئی فرق نہیں۔ اگر ہم ہندوستان میں حجاب کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی خواتین اپنے سر پر پلو یا دوپٹہ اوڑھے رہتی ہیں جبکہ مرد پگڑیاں پہنتے ہیں۔ سکھ مرد سر پر پگڑی باندھے رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی ملک کی کئی ریاستوں میں خصوصی موقعوں پر خاص قسم کے شملے استعمال کئے جاتے ہیں۔ (مثال کے طور پر میسور و پیٹا) اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تنازعہ کا مرکز کیا ہے؟ بہرحال چیختی چلاتی سرخیوں کے بیچ ٹی وی پر تبصروں اور ریمارکس کا ایک سیلاب اُمڈ پڑا حد تو یہ ہے کہ سوشیل میڈیا میں ٹرالس اور میمس نے ہلچل مچا دی۔ سیاسی رہنماؤں نے بڑی بڑی باتیں کی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اصل مسئلہ کہیں گم ہوگیا۔ میرے خیال میں صرف ایک لفظ ’’پسند‘‘ تک محدود ہوگیا۔
اب آپ کو بتاتے ہیں کہ ’’پسند‘‘ کے سوال پر بھی دو طریقہ کار منظر عام پر آئے ہیں یعنی حجاب کی پسند سے متعلق سپریم کورٹ کے دو ججس نے دو مختلف رائے دہی۔ جسٹس ہیمنت گپتا نے حجاب کی مخالف میں اور جسٹس سدرشن دھولیہ نے حجاب کی موافقت میں رائے دہی۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ آخر جسٹس گپتا نے کیا کہا۔
جسٹس گپتا :کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی کی جانب سے طالبات کیلئے یونیفارم زیب تن کرنے کو یقینی اور لازم بنانے سے متعلق ریاستی حکومت کا فیصلہ دستور کی دفعہ 19(1)(a) کے تحت دی گئی آزادی کی طمانیت کی خلاف ورزی نہیں کرتا بلکہ دفعہ 14 کے تحت حق مساوات کو مضبوط بناتا ہے۔ جسٹس گپتا نے اپنے فیصلے میں 11 سوالات تیار کئے اور ان سوالات کو پڑھ کر بھی سنایا۔ ان میں یہ سوالات بھی شامل تھے کہ آرٹیکل 25 کے تحت صوابدید اور مذہبی آزادی کے اختیار کا دائرہ کیا ہے اور دستور کی دفعہ 25 کے تحت ضروری مذہبی رواج کے اختیار کا دائرہ کیا ہے؟
جسٹس دھولیہ: ہائیکورٹ نے غلط راستہ اختیار کیا اور حجاب کا اہتمام بالآخر اپنی پسند کا معاملہ ہے ، اس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ نہیں۔ میری رائے میں لازمی مذہبی طریقوں کا یہ پورا تصور تنازعہ کو حل کرنے کیلئے ضروری نہیں تھا، سب کو معلوم ہے کہ دیہی علاقوں اور نیم شہری علاقوں میں لڑکیوں کو پہلے ہی بہت سی مشکلات و رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ آیا ہم ان کی زندگی بہتر بنارہے ہیں؟ دوسری طرف ایک پری یونیورسٹی اسکولی طالبہ سے اس کے اسکول کے باب الداخلہ پر حجاب اُتارنے کیلئے کہنا حقیقت میں اس طالبہ کی پرائیویسی (خلوت) اور حرمت پر حملہ ہے۔ اس طرح کی ہدایات سے واضح طور پر اسے (طالبہ) کو دستور ہند کی دفعہ 19(1)(a) اور 21 کے تحت فراہم کردہ بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
جسٹس گپتا: ایسے میں انصاف، آزادی، مساوات یا اخوت کا بنیادی مقصد کسی بھی قسم کے مذہبی اختلافات اور عدم مساوات کو دور کرکے پورا کیا جائے گا تاکہ طالب علموں کے بالغ ہونے سے پہلے ان کے ساتھ یکساں سلوک کے ذریعہ اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔
جسٹس دھولیہ : یہ ان میں مختلف مذاہب، زبانوں اور تقاضوں کے تئیں حساسیت، ہمدردی اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے کا وقت ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب انہیں ہمارے تنوع سے گھبرانا نہیں بلکہ اس تہذیبی و ثقافتی تنوع پر خوشی منانا سیکھنا ہے۔
جسٹس گپتا: اگر وہ مقرر کردہ یونیفارم کے باعث کلاسیس میں شرکت نہ کرنے کا انتخاب کرتے ہیں تو یہ ایسے طلبہ کا رضاکارانہ عمل ہے اور اسے ریاست دفعہ 29 کی خلاف ورزی نہیں کہہ سکتی۔جسٹس دھولیہ : اگر وہ اپنی جماعتوں (کلاسیس) میں بھی حجاب پہننا چاہتی ہیں تو اسے نہیں روکا جاسکتا۔ اگر اسے اس کی پسند کے مطابق زیب تن کیا جائے کیونکہ اسے کے قدامت پسند خاندان انہیں اسکول جانے کی اجازت دیں گے اور ان صورتوں میں حجاب ان کے حصول تعلیم کا ٹکٹ ہے۔ بعض مبصرین نے اس بات کی شکایت کی ہے کہ ایران جیسے قدامت پسند ملک میں حجاب کے خلاف ایک تحریک چل رہی تو حیرت کی بات ہے کہ جدید ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کا ایک گوشہ کلاس رومس میں لڑکیوں کے حجاب کا اہتمام کے حق کا دفاع کررہا ہے۔ اس طرح کی تنقید بالکل غلط ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہندو اور ایران میں جو تنازعہ ہے وہ ’’پسند‘‘ یا انتخاب کا ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے امریکہ میں خواتین کے حمل ساقط کرنے سے متعلق حق پر پیدا شدہ تنازعہ ہے۔
یہ تنازعہ ’پسند‘ اور ’حکمرانی‘ کا ہے۔ ’’پسند‘‘ آزادی، وقار و حرمت، خلوت (پرائیویسی) اور تنوع کی نمائندگی کرتا ہے اور حکمرانی اکثر اکثریتی بالادستی، عدم رواداری اور یکسانیت کیلئے مہم جوئی کا پراڈکٹ ہوتی ہے۔ غرض جسٹس دھولیہ نے ’’پسند‘‘ کو برقرار رکھا ، کیونکہ حجاب تعلیم کیلئے لڑکیوں کا واحد ٹکٹ ہوسکتا ہے۔ جبکہ جسٹس ہیمنت گپتا نے حکمرانی کو برقرار رکھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا وسیع تر بینچ کیا فیصلہ دیتا ہے، اس سے پہلے آپ میں سے ہر کسی کو اس بات کا فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ آیا آپ پسند کے ساتھ کھڑے ہیں یا حکمرانی کے حامی ہیں۔