حجاب کے معاملہ میں اسٹوڈنٹس کا ایجی ٹیشن ٹھیک نہیں

,

   

حجاب یا زعفرانی شال کیلئے احتجاج پر افسوس ، کرناٹک ہائیکورٹ کا عبوری حکمنامہ۔ پیر کو سماعت کا احیاء

بنگلورو: کرناٹک ہائیکورٹ نے جمعہ کو کہا کہ ریاست میں اسٹوڈنٹس کا مفاد اسی میں بہتر ہیکہ وہ کلاس رومس میں حجاب لگائے رہنے اور زعفرانی شال ڈالنے رہنے جیسے مسائل پر احتجاج کرنے کے بجائے پڑھائی کرے۔ کرناٹک ہائیکورٹ کے اجلاس کاملہ نے حجاب تنازعہ پر 7 صفحات پر مشتمل اپنے عبوری حکم نامہ میں بیان کیا کہ اس تنازعہ کے نتیجہ میں ریاست میں تعلیمی ادارے بند ہوئے ہیں۔ پیر کو سماعت کا احیاء ہوگا۔ ہائیکورٹ نے جمعرات کو اس مسئلہ پر اپنے احکام زبانی جاری کئے تھے اور آج عدالت نے اپنے حکمنامہ کی مکمل نقل جاری کی۔ مسئلہ یہ ہیکہ ریاست کے بعض تعلیمی اداروں میں کلاس رومس میں مسلم لڑکیوں کے حجاب پر امتناع آیا مذہب کی آزادی کے ان کے بنیادی حق کے خلاف ورزی ہوتی ہے؟ چیف جسٹس ریتوراج اوستھی، جسٹس کرشنا ڈکشٹ اور جسٹس جے ایم قاضی پر مشتمل ہائیکورٹ کی مکمل بنچ نے اپنے عبوری حکمنامہ میں بیان کیا کہ اسٹوڈنٹ کا اپنی کلاسوں کو واپس ہونا ہی بہتر ہے۔ وہ ایجی ٹیشن جاری رکھتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں ان کی پڑھائی خراب ہوگی اور شاید تعلیمی اداروں کو بند رکھنا ہی پڑے گا۔ کرناٹک میں تعلیمی سال عنقریب ختم ہونے والا ہے۔ عدالت نے ریاست کے کالجوں کو دوبارہ کھولنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ تعلیمی میعادوں کو طول دینا طلبہ کے تعلیمی کیریئر کیلئے نقصاندہ ہوگا بالخصوص ایسے وقت جبکہ اعلیٰ تعلیم ؍ کورسیس کیلئے داخلے میں میعاد کا وقت پر پورا ہونا ضروری ہے۔ ہائیکورٹ نے ایجی ٹیشن پر دکھ کا اظہار بھی کیا۔ عدالت نے کہا کہ اول تو ہمیں جاریہ ایجی اٹیشن پر دکھ ہے کیونکہ گزشتہ چند دنوں سے تعلیمی ادارے بند ہیں۔ نیز عدالت اس معاملہ میں الجھی ہے جبکہ دستوری اہمیت کے حامل کئی مسائل زیردوراں ہے۔ سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڈے نے دلیل پیش کی کہ کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ 1983ء میں ایسی کوئی دفعہ نہیں ہے جو کالجوں کو اختیار دے کہ اسٹوڈنٹس کیلئے یونیفارمس طئے کرے۔ کرناٹک ایڈوکیٹ جنرل نے مختصر مداخلت میں یہ دلیل پیش کی کہ حکومت نے ایسا کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا جس میں یونیفارمس طئے کئے گئے بلکہ یہ اختیار کالجوں کو دیا گیا ہے۔