حرفِ حق دہلی فساد : وطن کی فکر کر ناداں …

   

پروفیسر اخترالواسع
ملک کی راجدھانی دہلی میں محض سیاسی اختلافات نے دیکھتے ہی دیکھتے فرقہ وارانہ فساد کی شکل اختیار کرلی، متشدد افراد نے نفرت کی آگ اس طرح بھڑکائی کہ انسان انسان کے خون کا پیاسا ہوگیا۔ مشرقی دہلی کے جعفرآباد، سلیم پور، چاند باغ، مصطفی آباد، وزیرآباد کرم پوری، شیووہار اور جمنا پار کے دوسرے علاقے نفرت انگیز نعروں، سنگ بازی اور آتشزنی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوب گئے۔ رہ رہ کر بم بارود اور بندوق کی گھن گرج نے شمال مشرقی دہلی کو دہلا دیا تھا جس کے نتیجے میں 40 سے زائد افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخموں سے چور چور ہیں۔ موٹر کاروں، دکانوں، مکانوں یہاں تک کہ مسجدوں، اسکولوں، اور مدرسوں کو بھی نذرآتش کردیا گیا۔ پٹرول پمپ میں بھی آگ لگائی گئی اور سر راہ ایک فرقے کے لوگوں نے دوسرے فرقے کے بے گناہوں کو تہہ تیغ کیا یا ایسا زخم دیا کہ وہ موت و حیات کی کشمکش میں لاشہ بے جان بن کر مختلف اسپتالوں میں پڑے ہیں۔

دہلی اور علی گڑھ کے فساد نے بہت کچھ بیان کردیا ہے اور یہ صاف کردیا ہے کہ یہ ایک منصوبہ بند سازش تھی جس میں کچھ فرقہ پرست عناصر کامیاب ہوگئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سی اے اے کے خلاف شاہین باغ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جے این یو اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے اُٹھنے والی تحریک جو ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کے درمیان ایک عظیم الشان اتحاد کا باعث بنی تھی، پورے ملک میں اس تحریک کے بیانر تلے ہندو۔ مسلم اتحاد کی ایک بے نظیر مثال سامنے آرہی تھی، سکھوں نے جوق در جوق شاہین باغ کا رخ کرنا شروع کردیا تھا، شاہین باغ میں مسلم خواتین کے لئے سکھ بھائی کھانا پکار تھے، عیسائیوں نے منچ سنبھال رکھا تھا اور ہندو بھائی اور بہنوں نے کاندھا سے کاندھا ملاکر ایک نئی تاریخ رقم کردی تھی ۔ یہی وہ اتحاد تھا جو فرقہ پرستوں کو راس نہیں آرہا تھا۔ جس کی وجہ سے دہلی میں فرقہ واریت کا ننگا ناچ ہوا، دراصل یہ فرقہ واریت کی ایک منصوبہ بند صف بندی تھی جس کا مقصد شاہین باغ میں ہونے والے ہندو۔ مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرنا تھا لیکن مجھے یقین ہے کہ شاہین باغ نے ملک بھر میں جن سکیولر آوازوں کو متحد کیا ہے، اسے منتشر کرنے کی یہ ناپاک سازش کامیاب نہیں ہوئی ہے کیونکہ مشرقی دہلی کی گلیوں میں فرقہ واریت کے فروغ کی جتنی بھی کوششیں کی گئی ہوں اور جتنے بھی نعرے بلند کئے گئے ہوں، آج بھی حق پسند ہندوستانی مرد اور عورت متحد ہیں اور شاہین باغ کی تحریک کے ساتھ ہیں۔
دہلی کے ان فسادات میں ایک چیز جو اور سامنے آئی ہے، وہ یہ کہ برسراقتدار لوگوں نے شرجیل، کفیل اور طاہر حسین کو لے کر تادیبی کارروائیوں، تعزیرات ہند کی دفعات ان پر عائد کرنے اور ملک سے غداری کے تحت گرفتار کرنے میں جو تیزی دکھائی وہ پرویش ورما، انوراگ ٹھاکر اور کپل مشرا کے خلاف نہیں دکھائی گئی۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ عدلیہ عالیہ میں ہندوستان کا سالیسیٹر جنرل عدالت عالیہ کے فوری طور پر کارروائی کرنے کے جواب میں یہ دلیل دیتا ہے کہ ان کے خلاف اس وقت کوئی کارروائی کی گئی تو وہ حالات اور زیادہ خراب ہوسکتے ہیں یعنی ان تین لوگوں نے ملک کے نظم و نسق اور سرکاری مشینریوں کو یرغمال بنا رکھا ہے اور حکومت اپنے کو بے دست و پا بتا رہی ہے۔ یہ سراسر ظلم اور ناانصافی ہی نہیں بلکہ ظالم کو ہر طرح کی سہولت دینا ہے۔ انصاف میں تاخیر ایک عدم منصفانہ عمل ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ ہندوستان کے مرکزی وزیر قانون ہوں یا دہلی بی جے پی کے صدر یا پھر مشرقی دہلی سے بی جے پی کے نوجوان ایم پی سب ان تینوں کی اشتعال انگیزی، فرقہ وارانہ ہرزہ سرائی اور فتنہ پردازی کو تسلیم بھی کرتے ہیں لیکن ان پر کوئی ایکشن بھی نہیں لیا جاتا۔ یہ سب کچھ 1984ء کے سکھ فسادات کی یاد دلاتی ہے جس کے لئے بی جے پی، سجن کمار اور جگدیش ٹائٹلر کو آج تک معاف کرنے کو تیار نہیں ہے۔ 1984ء اور آج فرق صرف اتنا ہے کہ تلوار وہی ہے، صرف گردنیں بدلی ہیں۔ دہلی میں ہونے والے فسادات نے 2002ء کے گجرات فسادات کے زخموں کو بھی ایک بار پھر ہرا کردیا ہے۔ یہ فسادات دہلی میں سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی کی مخالفت کرنیوالوں کو سبق سکھانے اور دہلی کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی ہار کا بدلہ لینے کیلئے مبینہ طور پر برپا کئے گئے۔
ایک ایسے وقت میں جب دہلی میں فسادات ہورہے تھے، بہار کی اسمبلی میں وزیراعلیٰ نتیش کمار اور نائب وزیراعلیٰ سشیل کمار مودی 2010ء ( یعنی منموہن سنگھ سرکار) کی طرز پر این پی آر کرانے اور این آر سی نہ کرانے کا اعلان کررہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ بہار میں وزیراعلیٰ جے ڈی یو کے ہیں تو نائب وزیراعلیٰ بی جے پی کے تو پھر جو کچھ بہار کے لئے صحیح ہے، وہ پورے ملک کیلئے کیوں نہیں ؟ ملک بھر میں شاہین باغ کی طرز پر احتجاج کرنے والے بھی تو یہی مانگ کررہے ہیں پھر ان پر یہ ظلم و ستم کیوں؟ اسی طرح اگر سرکار اپنے حلیفوں جیسے اکالی دل کے مشورے کے مطابق سی اے اے میں صرف اتنی ترمیم کرلے کہ ’’سرکار دنیا میں کہیں بھی ظلم، ناانصافی اور مذہبی تفریق کا شکار ہونے والے لوگوں کو ہندوستان کی شہریت دے سکتی ہے‘‘۔ تو اس میں کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا اور اس میں صرف تین ملک اور ایک مذہبی فرقہ یعنی مسلمان نہیں رہ جائیں گے بلکہ یہ زیادہ بہتر، مؤثر، انسان دوست اور ہندوستان کی آن بان اور شان کو دوبالا کرنے والا فیصلہ ہوگا۔

آخر میں سرکار سے ہمیں یہ بھی کہنا ہے کہ یوگی ادتیہ ناتھ اور ان جیسے دوسرے لیڈروں کو دستور کی پاسداری سکھائی جائے تاکہ وہ بدلے کے جذبہ سے کام نہ لیں۔ وہ قانون کی پابندی پہلے خود کریں، اس کے بعد دوسروں سے کرائیں۔ وہ ایک ایسے وزیراعلیٰ کے طور پر جو ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست کا سربراہ ہے کسی ایک فرقے یا ان کے حامیوں کو اپنی سفاکیت اور بے رحمی کا نشانہ بنائیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ فرقہ وارانہ تشدد، غیرمنصفانہ طرز عمل اور صرف ایک مذہبی اقلیت کو سبق سکھانے کی پالیسی ملک کی معاشی ترقی کے لئے سب سے زیادہ مہلک ہے کیونکہ مذہبی رواداری کے بغیر سماجی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کے بغیر ملک کو دنیا کے نقشے پر ایک مستحکم اور معاشی طور پر ترقی یافتہ مرتبے تک نہیں پہنچایا جاسکتا ہے۔
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دہلی فساد نے اصل مسئلہ کو پس پشت ڈال دیا ہے لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ اس فساد کو کچھ لوگوں نے سی اے اے کی حمایت کے نام پر برپا کیا تھا لیکن سی اے اے مخالف تحریک نہ ختم ہوئی ہے اور نہ ہی انصاف پسندوں کو اسے ختم ہونے دینا چاہئے۔
دِلی فساد نے ایک سبق دیا ہے کہ اب ملک بھر میں مسلمانوں کو گاؤں گاؤں سدبھاؤنا منچ یا پیغام انسانیت تحریک کو تیز کرنا چاہئے کیونکہ اس ملک کو اگر بچانا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ یہاں کے سکیولر ہندوؤں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو ساتھ لیں اور ہر مہم کے لئے باہم شیر و شکر ہوکر آگے بڑھیں، اگر ایسا کیا گیا تو دیش بھی بچے گا اور آئین بھی، مسلمان بھی محفوظ رہیں گے اور دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے وہ کمزور لوگ بھی جو حاشیے پر پہنچا دیئے گئے ہیں اور اس طرح ہم سرکار اور ساری دنیا کو یہ بتانے میں کامیاب بھی ہوجائیں گے کہ
گو تھا زینت بوستاں پھر بھی جلایا میرا گھر
مجھ کو پھرایا کو بہ کو صحرا بہ صحرا در بہ در
میں بھی اس کے جلانے میں رکھوں گا کیا کوئی کسر
اب آشیاں بناؤں گا چمن کی ہر اک شاخ پر
میری خاطر باغباں کیا سارا چمن جلائے گا؟
(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ السلام کے پروفیسر ایمریٹس ہیں۔)