حساسیت کا فقدان

   

جہانگیر قیاس
یہ ایک مشہور کہاوت ہے ہم بچپن سے ہی اپنے بڑوں بزرگوں سے سنتے چلے آرہے ہیں’’اگلا گرا پچھلا ہوشیار‘‘ ۔ مگر ہم میں اب تک حساسیت نہیں آئی۔ آج کل حساسیت کا فقدان ہے ۔ ہم میں سے اکثریت بے حسی کی زندگی گزاررہے ہیں اور اپنے خیالوں کی دنیا میں گم ہے کسی معاملے میں سوچتے ہی نہیں بس جو دل میں آیا کرگزرتے ہیں۔ انجام سے بے خبر بلکہ یوں کہا جائے کہ انجام سے بالکل انجان ہے۔ چند لمحوں کے بعد کیا ہونے والا ہے‘ چند گھنٹوں میں کیا ہونے والا ہے‘ چند مہینوں میں یا پھر چند سالوں میں کیا ہونے والا ہے کبھی سوچتے ہی نہیں۔ بس جو بھی ہو آج ہو‘ کل جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ آج کل جلد بازی اور لاپرواہی انتہا کو پہنچ گئی ہے ‘ ہاں انسان فطرتاً جلد باز ہے مگر علم اور عمر کے ساتھ ساتھ تحمل بھی آنا چاہئے۔

آپؐ نے فرمایا ’’مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ ڈسا نہیں جاتا‘‘۔ یعنی ایک مرتبہ دھوکا کھانے کے بعد دوبارہ دھوکا نہیں کھاسکتا یعنی ایک مسلمان بڑا حسّاس ہوتاہے اس کی حالات حاضرہ پر گہری نظر ہوتی ہے اور اس کی زندگی کا ایک مقصد ہے۔ مومن بامقصد زندگی جیتاہے۔ وہ نیکی کا خوگر ہوتاہے۔
آئیے میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ ماں باپ اپنی اولاد پر نظر رکھیں او رانہیں سادہ زندگی مہیا کریں‘ پرتعیش اور آرام دہ زندگی سے دور رکھیں۔ دین کی طرف راغب کریں‘ ان کی نمازوں پر نظر رکھیں‘ معصوم بچوں کو موٹر سیکل خرید کر وہ ایک طرح کی غلطی کررہے ہیں۔ ابھی وہ شعور کو نہیں پہنچے‘ حادثات کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے معذور ہورہے ہیں۔ ایک ہاتھ میں گاڑی کا ہینڈل دوسرے ہاتھ میں سیل فون‘ بس اپنی دھن میں مگن‘ آپ کے بچے کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ محلے میں تمام لوگ دیکھ کر کیا سمجھیں گے۔ لوگ آپ کے تعلق سے کیا تاثر اپنے اندر محسوس کریں گے۔ نہ گاڑی آپ کی ہے نہ فون آپ کا ہے یہ کھلونے آپ کے ماں باپ مہیا کررہے ہیں‘ اس سے کیا ہورہا ہے آپ معذور ہورہے ہیں یا سامنے والے کو ٹکر مار کر معذور کررہے ہیں۔ گھر کے سامنے کھیلنے والے معصوم بچوں کو زندگی بھر کے لئے معذور بنارہے ہیں۔ آخر اسکا حساب اس دنیا میں کم مگر اس دنیا میں بہت سخت حساب ہوگا۔ صرف آپ کی لاپرواہی کی وجہ سے‘ آپ میں حساسیت ہی نہیں ‘ آپ بے حس ہوتے چلے جارہے ہیں۔ آپ خواب غفلت میں ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ مجھے محلے والے بہت اچھا انسان اور دولت مند کامیاب باکردار سمجھ رہے ہیں۔ نہیں نہیں آپ کیا ہیں‘ کتنے پانی میں ہیں‘ سب جانتے ہیں۔ میرے بھائی حقیقت کی طرف آئو ‘ لوگ بے زار ہوکر ایک گلی میں 15-10اسپیڈ بریکر بنارہے ہیں آپ جیسے لاپرواہ لوگوں سے بچنے کے لئے ‘اب اس اسپیڈ بریکر سے دن بھر میں جتنے بھی لوگ تکلیف اٹھائیں گے اس کا حساب بھی آپ جیسے لاپرواہ لوگوں کو اپنے رب کے ہاں دینا ہوگا۔ جہا ںبھی ایکسڈنٹ ہوتاہے فوراً 6-4نئے اسپیڈ بریکرز تعمیر ہوجاتے ہیں جو راستہ15 منٹ میں طے کرسکتے اس کو طے کرنے کے لئے30 منٹ پہلے آپ کو گھر سے روانہ ہونا ہوتاہے۔

اب آئیے شادی بیاہ کے معاملے میں بغیر اچھی دریافتی کے شادیاں ہورہی ہیں اور نتیجہ آپ کے سامنے پولیس اسٹیشن میں خاندانی جھگڑو ںکی بھرمار ہے۔ خاندان کا ایک فرد دوسرے فرد سے جڑا ہوا نہیں ہے اور نہ ہی خاندان میں کوئی بڑا ہے ‘ جس کو بھی آپ بڑا مانتے ہو جس کی مرضی میں جو آیا کررہے ہیں۔ آپ اپنی مرضی سے اپنے خاندان میں کسی ایک کو بڑا بنالو تاکہ اس ایک بزرگ کے اشارے پر سب خاندان والے چل سکیں۔ وہ اپنے خاندان کا امیر ہوگا یعنی نگران کار آج کل جس کے گھر کا وہی بڑا۔ آپ الیکشن میں تو لیڈر کو لائن میں ٹھہر کر ووٹ ڈال کر منتخب کرتے ہیں اسی طرح اپنے خاندان میں بھی ایک خاندان کا بڑا مقرر کرلیں جو دانش مند ہو‘ علم جاننے والا ہو‘ زمانہ شناس ہو‘ زیادہ علم والوں سے میل جول رکھنے والا ہو جس کو گفتگو کا فن آتاہے تاکہ اچھے برے حالات میں وہ آپ کی طرف سے بات کرسکے۔ لوگوں کو بات کرنے کا فن بھی نہیں آتا ایسا ہر کوئی نہیں ہے۔ صرف چند لوگ ہیں۔ جب لوگ خاندانی مسائل اور جھگڑوں کو لے کر عدالت یا پولیس اسٹیشن آتے ہیں تو ان کی حساسیت اور دانشمندی کا پتہ چلتاہے اور بڑا افسوس ہوتاہے ۔ لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں مگر صرف پیشہ ورانہ تعلیم‘ اس سے ہٹ کر بالکل نادان ہوتے ہیں ‘ زمانہ شناس نہیں ہوتے کیونکہ ان لوگوں نے کورس کی کتابوں کے علاوہ دوسری کوئی کتاب پڑھی ہی نہیں۔ صرف روٹی کے لئے تعلیم حاصل کرلی اور روٹی مل گئی‘ دولت مل گئی مگر اس دولت کو کس طرح استعمال کریں اس سے واقف نہیں ہیں ایسے لوگ ٹھگوں کے حوالے ہوجاتے ہیں۔ ٹھگ ایسا چور ہوتاہے جس کو چور سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ ٹھگ کبھی داماد کی شکل میں آپ کا استحصال کرتے ہیں کبھی کرائے دار کی شکل میں‘ کبھی رئیل اسٹیٹ کی شکل میں‘ کبھی تجارت کی شکل میں‘ کبھی تجارتی شراکت داری کی شکل میں آپ کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ یہ لوگ آپ کے دماغ کو پڑھ لئے ہوتے ہیں کبھی سیل فون میں میسیج بھیج کر آپ کو ایک لاکھ روپئے کا انعام ملا آپ فوراً 10ہزار جمع کردو اس طرح سے آپ کو لوٹ رہے ہیں‘ یہ کس وجہ سے ہورہا ہے۔ ایک تو آپ اہل علم کے ساتھ نہیں‘ صرف اہل زر کے ساتھ ہیں‘ دوسر ے آپ کا مطالعہ محدود ہے اور آپ کے ملنے جلنے والے بھی محدود ہیں اور آپ زندگی کی گاڑی کو بھی لاپرواہی سے اور آرام طلبی سے چلارہے ہیں۔ آپ میں حساسیت ختم ہوتی چلی جارہی ہے۔ آپ کے گھر کا پانی سڑک پر جارہا ہے آپ کو احساس ہی نہیں ہے۔ آپ کی نوجوان لڑکی اسمارٹ فون استعمال کررہی ہے اس کا آپ کو احساس ہی نہیں‘ مانتے ہیں آپ کی لڑکی شریف ہے مگر آگ تو آخر آگ ہے اس سے کھیلنا کبھی نہ کبھی نقصان کا باعث ہوتاہے۔ آج کل لوگ اسکیم اور آفر کے دیوانے ہوگئے ہیں یہ لوگ حقیقت کی دنیا میں جینا نہیں چاہتے انہیں ہر چیز آفر اور اسکیم میں ہی اچھی لگتی ہے آج کل بڑی بڑی کمپنیاں آپ کے ذہن کو پڑھ کر مال کے معیار سے زیادہ اشتہار بازی پر پیسہ خرچ کررہی ہے۔

جیسا کرکٹ میاچ ہوتے ہیں ہمارے نوجوان فوراً اس کا اثر قبول کرکے سڑکوں پر کرکٹ کھیلنا شروع کردیتے ہیں‘ کرکٹ کھیلنا برا نہیں ہے مگر سال بھر کھیلو‘ کسی میدان میں جاکر تاکہ ایک اچھے کھلاڑی بن سکو۔ لوگ رمضان میں سحری کرکے سورہے ہیں اور اپنے بچے گلی میں شور شرابہ کررہے ہیں کیا ہم ان کو روک نہیں سکتے۔کیا ہم میں حساسیت ختم ہوگئی ؟ کیا ہم بے حس ہوگئے؟ میرے بھائی اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے‘ ہر کوئی اپنی اولاد کو سمجھائے اور اچھی تربیت کرے تو پھر یہ مسائل ختم ہو جائیں گے ‘ پولیس کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
آئیے صاحب! اب رہا پارکنگ کا مسئلہ ۔ ہر کوئی کار خریدنے کی چکر میں ہے مگر رکھتے کہاں پڑوسی کو تکلیف ہوگی اس کا آپ کو احساس ہی نہیں۔ احساس ایسی دولت ہے جو اللہ نے انسان کو ہی عطا کی ہے مگر بعض جانور بھی بڑے حساس ہوتے ہیں۔ جب آپ کار خرید رہے ہیں تو گیاریج میں رکھنے کا بھی انتظام کرو۔ آپ کی سہولت کے لئے دوسروں کو تکلیف دینا اچھی چیز نہیں ہے۔ پارکنگ کے مسئلے میں قتل تک ہوتے ہیں‘ پڑوسی پڑوسی کا قتل کررہا ہے۔ سڑک چلنے پھرنے کی چیز ہے آپ کی گاڑی کی پارکنگ نہیں ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے ہماری حکومت رات کو سڑک پر جو گاڑی پارک کی ہوتی ہو اس کی فیس وصول کرے ہوسکتا ہے آئندہ یہ قانون بھی آجائے گا۔