پیارے بچو! حضرت صالح علیہ السلام کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر آتا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ’’ابوالانبیاء‘‘ (نبیوں کے باپ) اور ’’خلیل اللہ‘‘ (اللہ کے دوست) کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں آپؑ کا تذکرہ 25 سورتوں میں آیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام آپ ہی کی اولاد ہیں۔ قرآن حکیم نے آپؑ کے والد کا نام ’آزر ‘بتایا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جب دیکھا کہ اللہ کے بندے ،بت تراش بن چکے ہیں اور اُن کی پوجا کررہے ہیں ، خود آپؑ کے والد آزر مورتیاں بناتے اور بیچتے تھے، بت پرستی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ اس وقت قوم کا سرکاری مذہب ’’بت پرستی‘‘ ہوچکا تھا۔ اُن حالات میں حضرت ابراہیم ؑ نے سب سے پہلے اپنے والد کو توحید (صرف ایک اللہ کی عبادت) کی دعوت دی اور کہا کہ بابا! آپ کیوں ایسی چیزوں کی پوجا کرتے ہو جو نہ سنتی ہیں ، نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کے کچھ کام ہی آسکتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ابراہیم ؑ ساری قوم کو بھی ایک اللہ کی عبادت کرنے اور ہر ضرورت یا تکلیف دُور کرنے کیلئے اُسی سے مدد مانگنے کی دعوت دی لیکن سارے لوگ اور آپؑ کے والد سب کے سب آپؑ کے خلاف ہوگئے۔ جب آپؑ نے دیکھا کہ قوم پر اسلام کی دعوت کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے تو ایک دن جب سب لوگ میلے میں شرکت کیلئے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے، آپؑ نے اکیلے بڑے بت خانہ میں جاکر سب بتوں کو توڑ ڈالا اور سب سے بڑے بت کے کاندھے پر کلہاڑی رکھ کر واپس چلے آئے۔ جب لوگ میلے سے واپس آئے تو مندر میں بتوں کا برا حال دیکھ کر آپؑ سے پوچھا : ہمارے بتوں کا یہ حال کس نے کیا اور کس نے اُنہیں توڑا ؟ آپؑ نے جواب دیا کہ بتوں سے خود پوچھو ۔اس پر یہ لوگ خود کہنے لگے : ’’ائے ابراہیم ! آپ تو جانتے ہیں کہ یہ سارے بت بول نہیں سکتے اور انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ غلطی پر ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے سب سے پہلے اپنے والد آزر اور اس کے بعد قوم کو اور آخر میں بت پرست بادشاہ ِوقت نمرود کو توحید کی دعوت دی اور جب ابراہیم ؑ کو بادشاہ نمرود کے دربار میں اُس کے سامنے لے جایا گیا تو انہوں نے اُسے سجدہ نہیں کیا۔ پوچھنے پر بتایا کہ میں اپنے پروردگار کے سوا کسی دوسرے کو سجدہ نہیں کرتا۔ بادشاہ نمرود نے پوچھا تیراپرودگار کون ہے؟ آپؑ نے فرمایا : ’’ میرا رب وہ ہے جو مردے کو زندہ کرتا ہے اور زندوں کو مردہ اور میرا رب مشرق سے سورج نکالتا ہے۔‘‘لیکن اس توحید کی دعوت کو قبول کرنے کے بجائے وہ مشرک بادشاہ نمرود اور سارے بت پرست ، ابراہیم ؑ کے خلاف ہوگئے اور یہ طئے کیا کہ آپ ؑ کو دہکتی ہوئی آگ میں جلا دیا جائے۔’’منجنیق‘‘ کے ذریعہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے الاؤ میں ڈال دیا گیا مگر اللہ کے حکم سے آگ آپ ؑپر سلامتی والی بن گئی اور آپ ؑکو کچھ بھی نہ ہوا ،پھر آپ ؑ وہ زبردست آگ سے اطمینان کے ساتھ باہر نکل آئے۔ اس کے بعد اللہ کے حکم سے آپؑ نے ہجرت کی اور فلسطین سے ہوتے ہوئے مصر پہنچے۔ ابراہیم ؑ کے ساتھ اُن کی بیوی بی بی سارہ اور بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام اور اُن کی بیوی تھے۔ یہاں آپ ؑ کو ایک ظالم بادشاہ سے سابقہ پڑا لیکن بعد میں یہ یقین ہوگیا کہ آپؑ کے خاندان کے لوگ اللہ کے انتہائی نیک اور پرہیزگار بندے ہیں۔ اس کے بعد بادشاہ نے اپنی بیٹی بی بی ہاجرہ ؓ کی شادی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کی ۔حضرت ابراہیم ؑ، اپنی بیویوں بی بی سارہؓ اور بی بی ہاجرہ ؓکے ہمراہ فلسطین سے ہوتے ہوئے شام پہنچ گئے۔ وہاں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے بندوں کو اُس کے پسندیدہ دین ’’اسلام‘‘ کی تعلیمات سے نہ صرف واقف کرایا بلکہ اُس پر عمل کرکے بھی بتایا۔