ڈاکٹر محی الدین حبیبی
20 جنوری کی صبح آفتاب تو اُفق پر نمایاں تو ہوالیکن اسی دن صبح صبح شعری دنیا کی سحر نہ ہوئی کیونکہ دکن کا ’’آفتابِ سخن‘‘ یعنیٰ رحمن جامیؔ ڈوب چکا تھا ۔ ’’شعرستان‘‘ تاریکی میں غرق ہوچکا تھا۔ ’’چمن سخن‘‘ ویراں ہوگیا کہ اب اُس کا ’’دیدہ ور‘‘ ہی نہ رہا جو گلاب کی پنکھڑیوں پر رقص کرتے ہوئے شبنم کے قطروں کو گہرہانے آبدار کہتا تھا جو کلی کے پھول بننے کے مرحلوں سے واقف تھا ۔ وہ افسردہ اور ناشگفتہ غنچوں کے اشارات و کنایات کے فہم سے بھی آگاہ تھا ۔ وہ بادِصبا کے گلوں سے چھونے کے عمل سے فضائیں بکھرنے والی خوشبو کے راز کو بھی جانتا تھا ۔ جامی صاحب زندگی کے دشت بلا میں صداقت کو بھی رواج دینے کے فن سے بھی بڑی واقفیت رکھتے تھے۔ جس معاشرہ میں سماعتوں پر کوئی دھیان نہ دے اور بصارتوں کو کچھ نظر نہ آئے جامی وہاں اپنی آواز کو بلند کرتے تھے اور بصیرتوں کو بصارتوں تک لے کر جانا انہیں خوب آتا تھا ۔ وہ چشم خوں بستہ کو چشم بہاراں بنانے کا فن اپنی مخصوص شعری وصف کے حو الے سے پیش کرتے تھے۔
کاش ! یہ آفتاب نہ ڈوبتا اور گردش ایام مروت کرتی!! لیکن قضاء و قدر کے فیصلوں کو قبول کرنا پڑتا ہے ۔ یہ حکم الٰہی کے منشاء ہی ہوتا ہے اور اسی حکم کی بناء پر حضرت جامی اصل اور اصول سے وابستہ ہوگئے ۔ اسی لئے انگریزی میں ایک مشہور مقولہ ہے…
“Life is Uncertain But Death is certain” لیکن حضرت جامی بھی بڑی شان سے اس بارگاہ میں گئے ؎
اس شان سے ہم آئے تیری بارگاہ میں
مشعل دکھائی برق تجلی نے راہ میں
جب تک وہ زندہ رہے ، اس اعتماد سے جیا کئے کہ زندگی کو ان کی ضرورت ہے ، ایسا احساس ہی کسی بڑے انسان کا مقصد حیات ہوتا ہے اور جامی صاحب کا شمار ان ہی میں ہوتا ہے ۔ ایسا نہیں تھا کہ ان کی راہوں میں گلاب بچھے ہوئے تھے ۔ انہوں نے بھی صحرا ، نوردی بھی کی آبلہ پائی سے سے بھی گزرے۔ را ہ میں پڑی کانچ کی کرچیوں سے پاؤں لہو لہان بھی ہوئے۔ مگر ان کی طبعی استقامت اور خود کو پانے کی جستجو اور دشتِ امکاں ، کو ا یک ’’نقش پا‘‘ خیال کرنا ان کی قوتِ عمل کو تیز کرنے کا موجب بنی رہی ۔ حالات کی ناسازگاری اور ناہمواری نے ہمیشہ دم پرواز ، ان کے ’’بال و پر‘’ کو توانائی بخشی، ان کی اولوالعزمی ، عالی ہمتی ، بلند نگاہی ، جہد مسلسل اور ثابت قدمی ہر ایک کیلئے مشعل راہ ہے
جہاں تک ان کی شاعرانہ کمالات کا معاملہ ہے یہ کہنا مشکل ہے کہ شاعری میں یہ تمام شاعر ہیں یا تغزل و نظم کے شاعر !! کیونکہ ہمیں ان کی شاعری میں یہ تمام رنگ و ڈھنگ ملتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ان کے اشعار پر کچھ لکھا جائے ، ان کے مزاج کے بارے میں کچھ بتاتا چلوں ۔ ایک مرتبہ نجی ملاقات میں ،میں نے ان سے کہا کہ آپ ’’کامل المحاسن‘‘ ہیں تو فوری فرمایا کہ میں ’’حبیبی صاحب میں ہوں تو کامل مگر ’’کامل العیوب‘‘ ہوں اور یہ شعر پڑھ دیا ؎
میرے وجود میں ہیں کمالات نیک و بد
تہذیب و تجربات کا ایک دور مجھ میں ہے
یہی ان کی انکساری کا وصف تھا جو سب کا دل موہ لیتا تھا ۔شاعر مختلف تجرابت و مشاہدات سے گزرتا ہے تو شاعری میں معنی آفرینی اور عصری حسیت کو محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ کہتے ہیں … ؎
پھول پھینکے کہ میری راہ میں پتھر پھینکے
جس کو جو پھینکنا ہے سوچ سمجھ کر پھینکے
حضرت جامی کی شاعری علامہ اقبال کے شعری نظریہ سے ہم آہنگ کہی جاسکتی ہے کیونکہ علامہ اقبال کہتے ہیں ؎
یہ کون غزل خواں ہے ، پرسوز و نشاط انگیز
اندیشۂ دانا ، کو کرتا ہے جنوں آمیز
جامی صاحب نے ا پنے تغزل فکر کے شوخ اجالے بھی بخشے ہیں جب ہی تو ہر لفظ کی تاثیر محسوس کی جا سکتی ہے جو معنی آفرینی کی تنویر سے شعر کو منور کردیتی ہے۔ کہتے ہیں ؎
لہر اٹھے گی تو یہ عکس بھی چھن جائے گا
ہر سکوں جھیل میں اب نہ کوئی کنکر پھینکے
اس مختصر سے مضمون میں ان کے بارے میں لکھنا مشکل ہے ؎
سفینہ چاہتے اس … پیکراں کیلئے
ایسا منکسر المزاج ، دلبر ، غم گسار اور آگاہ معرفت شاعر شاید ہی دکن سے اٹھا ہو جس نے اپنی شاعری کو ایک ’’عہد ساز‘‘ شعری کیفیات کا مجموعہ بنادیا ۔ ان کے اخڈق کریمانہ اور شعری ہنرمندی اور عارفانہ فکر کو پیش کرنا ایک مشکل امر ہے۔ بہر حال ہمارے درمیان سے ایک عہد ساز شاعر چپکے سے چلا گیا نہ کوئی آہٹ ، نہ کوئی صدائے سوز اور نہ کوئی صورت سرمدی … ! البتہ ا پنے پیچھے سینکڑوں شاگردوں کو چھوڑا ہے جو خوش بخت ہیں کہ وہ حضرت جامی سے فیض یاب ہوتے ۔ یقین ہے ان کے شاگرد ان کے فکر و نظر اور فلسفۂ حیات کو اپنے لئے رہنما و رہبر بنائیں گے۔ ان کے شاید 15 مجموعہ کلام شائع ہوچکے ہیں جن میں ’’پیر مغاں، بہت خاص ہے اور یہاں معرفت و تصوف کی چاشنی ملتی ہے ۔ انہوں نے اپنے شعری گلستاں کو اپنے ہی لہو سے سینچا تھا اور ہر روش میں ایک ’’دیدۂ دل‘‘ ’’غم ذات‘‘ اور غم کائنات کو نکھارا تھا ۔ اس خلاء کو پر کرنا مشکل ہے ، ان ہی کے شعر پر بات ختم کرتا ہوں ؎
بندگی جب سے آگئی جامی
عبدالرحمن ہوگیا ہوں