حضرت سید شاہ خسرو حسینی کے انتقال سے قوم کو ناقابل تلافی نقصان

   

دائرۃ المعارف العثمانیہ میں تعزیتی اجلاس، پروفیسر ایس اے شکور کا خطاب
حیدرآباد۔/16 نومبر، ( پریس نوٹ ) دائرۃ المعارف العثمانیہ ، عثمانیہ یونیورسٹی میں ایک تعزیتی اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں عظیم علمی و روحانی شخصیت حضرت سید شاہ خسرو حسینی کی قومی و علمی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ حضرت سید شاہ خسرو حسینی روضہ گلبرگہ شریف کے سجادہ نشین خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی گلبرگہ کے چانسلر اور کُل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر، دائرۃ المعارف العثمانیہ مجلس علمی کے رکن تھے۔ حضرت کی وفات پر تعزیتی نشست دائرۃ المعارف کے ڈائرکٹر پروفیسر ایس اے شکور کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ انہوں نے حضرت خسرو حسینی کے انتقال کو قوم کے لئے ناقابل تلافی نقصان قرار دیتے ہوئے ان کی زندگی اور خدمات پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر ایس اے شکور نے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دائرۃ المعارف العثمانیہ سے حضرت خسرو حسینی کا گہرا تعلق رہا، آپ مجلس علمی کے رکن تھے یہاں کے تحقیقی کاموں کو انہوں نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا اور انہیں بھرپور سراہا اور دائرۃ المعارف کی ترقی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ حضرت خواجہ گیسو دراز بندہ نواز محمدالحسینی کی مشہور تفسیر الملتقط کی تحقیق اور اشاعت کے لئے بھی حضرت خسرو حسینی نے دائرۃ المعارف العثمانیہ کو منتخب کیا۔ یہ تفیسر تقریباً دو ہزار صفحات پر مشتمل ہے اور چھ سو سال سے زائد عرصہ سے مخطوطہ کی شکل میں محفوظ تھی جس کی تحقیق و اشاعت کی ذمہ داری دائرۃ المعارف العثمانیہ کو حاصل ہوئی۔اجلاس میں دائرۃ المعارف کے شعبہ ریسرچ و ایڈیٹنگ کے تمام ایڈیٹرس نے شرکت کی جن میں مولانا مبین اقبال نظامی، مولانا ڈاکٹر سید رئیس الدین نظامی، مولانا مفتی ایم ڈی ایچ قلندر ندوی، مولانا مفتی محمد عبدالرحمن عمری نظامی، مولانا ڈاکٹر سید احمد زکریا غوری ندوی، مولانا ڈاکٹر عظمت اللہ ندوی، مولانا مفتی امین الدین نظامی، مولانا ڈاکٹر شرف الدین نظامی اور مولانا صبغۃ اللہ شریف قاسمی کے علاوہ دیگر ملازمین بھی موجود تھے۔ تمام شرکاء نے حضرت خسرو حسینی ؒ کی خدمات کی ستائش کی اور ان کو ناقابل فراموش قرار دیا اور کہاکہ ان کے انتقال سے علمی و اصلاحی حلقوں میں ایک عظیم خلاء پیدا ہوگیا ہے جسے پُر کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ شرکاء نے اس بات کا اعتراف کیا کہ حضرت خسرو حسینی نے مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشرتی ترقی میں جو کردار ادا کیا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ علمی و اصلاحی حلقوں میں ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی، اور ان کا نام ہمیشہ عزت و احترام سے لیا جائے گا۔