حضرت محمدؐ نے انسانیت مساوات اور عدل کی تعلیم دی

   

پریم چند نے کیا تھا تاریخی خطاب

ڈاکٹر امیہ کمار
اُترپردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے اور چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ وقفہ وقفہ سے صرف ایک کمیونٹی کو نشانہ بناتے ہوئے بیانات دیتے ہیں، تقاریر کرتے ہیں جس سے ریاست میں ہی نہیں بلکہ سارے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس طرح وہ اپنی اشتعال انگیزی کے ذریعہ نہ صرف اُترپردیش بلکہ ملک کی بدخدمتی کررہے ہیں ۔ اُترپردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اور ماضی میں وہاں ہندو ، مسلم عید و تہوار مل جلکر منایا کرتے تھے۔ آج جس پارلیمانی حلقہ وارانسی کی نمائندگی وزیراعظم نریندر مودی کرتے ہیں اس شہر کو بنارس بھی کہا جاتا ہے ۔ کبھی وہاں میلادالنبی ﷺ بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا جس میں ہندو بھائی بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیتے تھے ۔ وارانسی میں 12 ربیع الاول کو سڑکوں گلیوں اور محلوں کو سجایا جاتا ، روشنی کی جاتی ، جلوس نکالے جاتے ، سجے سجائے بازاروں میں زبردست چہل پہل ہوتی ۔
ماضی میں وارانسی میں جلوسِ محمدؐ کے نام سے جلوس نکالے جاتے لیکن افسوس کہ اب اسی وارانسی اور اسی ریاست اُترپردیش میں ’’آئی لو محمد ‘‘ پوسٹرس لگانے پر نوجوانوں کو زدوکوب کیا جارہا ہے ۔ اُن کے خلاف پولیس کارروائی کی جاری ہے ۔ مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں ۔ اُن کی جائیدادوں کو مہربند کیا جارہا ہے ۔ یہاں تک کہ علماء کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جاری ہیں ۔
اکثر 1930 ء کے میلادالنبی ﷺ کے جلوس کو یاد کیا جاتا ہے۔ ویسے بھی آزادی سے قبل سارے اُترپردیش میں بڑے پیمانہ پر میلادالنبیﷺ کے جشن منائے جاتے تھے جس میں بلا لحاظ مذہب و ملت لوگ بڑی عقیدت و احترام سے شریک ہوا کرتے تھے اور جلسے و جلوسوں میں سبز جھنڈیاں اور پرچم لہرائے جاتے تھے ۔
2006 ء میں بھی وارانسی میں میلادالنبی ﷺ بڑے جوش و خروش سے منایا گیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان میں میلادالنبی ﷺ کے جلسے و جلوسوں کا پہلی مرتبہ اہتمام کیا گیا سب سے پہلے ممبئی اور کاشی یا وارانسی میں میلادالنبی ﷺ کے جلسے اور جلوس نکالے گئے ۔ ممبئی کی جمعہ مسجد سے جلوس نکالا گیا جس کا اختتام چھوٹا سوناپور قبرستان کے قریب عمل میں آیا ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بمبئی میں سب سے پہلے 1919 ء کے دوران خلافت ہاؤس میں جشن میلادالنبی ﷺ منایا گیا۔ جہاں تک کاشی میں جشن میلادالنبی ﷺ کے اہتمام کا سوال ہے ممتاز ادیب پریم چند نے ایسی ایک محفل میں شرکت کی اور بعد میں اس بارے میں لکھا بھی ۔
میلادالنبیؐ کے جلسوں کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ان میں غیرمسلم شعراء اور ادیب اپنی شرکت کو خود کیلئے ایک اعزاز سمجھا کرتے تھے ۔ اس طرح کے ایک جلسہ میں پنڈت سندر لال جی کاخصوصی خطاب ہوا کرتا تھا ۔
یہ مضمون 7 جولائی 1993 ء کو کاشی یعنی بنارس کے تاج محل ہوٹل میں منعقد ہونے والے ایک جلسہ پر مبنی ہے جس میں میلادالنبیؐ کے موقع پر ایک تقریب رکھی گئی تھی ۔ اس موقع پر مشہور ادیب پریم چند نے روس کا ایک مشہور شاعر اور پیشن گوئی کے عنوان سے ایک مضمون پڑھا تھا۔ جب مسلمان میلادالنبیؐ کے موقع پر یا کسی اور موقع پر جلوس نکالتے ہیں تو بعض عناصر اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کاشی میں منعقد ہونے والی اُس تقریب کی صدارت پنڈت سدرشن نے کی اور مختلف برادریوں کے لوگ اس میں شریک تھے ۔
پریم چند نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ حضرت محمدؐ نے انسانیت ، مساوات اور عدل کی جو تعلیم دی وہ آج بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی اُس وقت تھی ۔ اُن کے مطابق مذہب کا مقصد تفرقہ نہیں بلکہ انسانوں کو قریب لانا تھا ۔ ڈاکٹر امیہ کمار کے مطابق پریم چند کا یہ رویہ آج کے وقت میں بھی ایک مثال ہے کہ ادب کس طرح فرقہ واریت کے خلاف مزاحمت کا کام کرسکتا ہے ۔
پریم چند نے اس تاریخی موقع پر بڑی دانشمندی اور انسانیت پر مبنی خیالات پیش کئے اور انھوں نے اپنے ناولوں اور کہانیوں کے ذریعہ انسانیت کی بنیاد پر ایک نئے سماجی نظریئے کو فروغ دیا ۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہاکہ ہمیں مذہب کے اصل مقصد کو سمجھنا چاہئے ۔ اُن کاکہنا تھا کہ حضرت محمدؐ نے ظلم کے خلاف اور انصاف کیلئے جو آواز بلند کی وہ تمام انسانوں کیلئے ایک مثال ہے ۔ انھوں نے اس واقعہ کے پس منظر میں اس زمانے کے ہندوستان کی مذہبی وسماجی صورتحال پر روشنی ڈالی اور کہاکہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو ختم کرنے کا واحد راستہ علم ، سمجھ اور باہمی احترام ہے ۔پریم چند ، محمد حبیب اور دیگر سیکولر مورخین نے اپنے وقت میں مذہب کے نام پر پھیلائے جارہے پروپگنڈہ کی مخالفت کی۔ انھوں نے بتایا کہ حضرت محمدؐ کی تعلیمات انسانی مساوات اور عدل پر مبنی ہیں۔ اُن کے مطابق اسلام کا مقصد انسانوں کے درمیان امتیاز نہیں بلکہ مساوات ہے ۔ حضرت محمدؐ نے غلاموں اور کمزوروں کو سماجی احترام دلایا ۔ عورتوں کے حقوق کیلئے آواز اُٹھائی اور انصاف پر مبنی معاشرت قائم کی ۔
پریم چند نے زور دیاکہ فرقہ وارانہ ذہنیت انسانیت کیلئے زہرہے ۔ مذہب اگر انسانوں کے درمیان دیوار کھڑی کرتا ہے تو وہ اپنا اصل مقصد کھودیتا ہے۔ اسلام کی ان ہی خصوصیات کی بناء پر چھوٹی ذاتوں نے اسلام میں نجات کاراستہ دیکھا ۔ پریم چند نے اپنی تحریروں میں ان طبقاتی تضادات کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش کی ۔ انھوں نے یہ واضح کیا کہ ہندوستانی سماج میں اسلام ان کے خلاف ایک مضبوط پیغام دیتا ہے۔ پریم چند نے کہاکہ اسلام نے مساوات اور بھائی چارے کا جو پیغام دیا وہ انسانیت کیلئے روشنی کا مینار ہے۔انھوں نے لکھا کہ اسلام نے مظلوموں ، دلتوں اور محروم طبقات کو عزت اور برابری دی جبکہ ہندو سماج میں صدیوں سے وہ استحصال کا شکار تھے ۔
پریم چند کا ماننا تھا کہ ذات پات کی بنیاد پر بنے سماج میں حقیقی انسانیت کا تصور ممکن نہیں ۔ انھوں نے کہا کہ اسلام نے انسان کو انسان سمجھا ، سمجھنا سکھایا جبکہ ذات پات کا نظام انسان کو تقسیم کرتا ہے۔ پریم چند نے حضرت محمدؐ کی تعلیمات کو اُجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپؐ کی تعلیمات آگے بڑھنے کا پیغام ہے نہ کہ پسماندگی کی طرف لوٹنے کا۔ انھوں نے بتایاکہ حضرت محمدؐ نے مساوات اور انصاف کی بنیاد پر ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جو انسانوں کے درمیان نفرت نہیں بلکہ محبت پیدا کرتا ہے ۔
پریم چند کے مطابق حضرت محمدؐ کا پیغام صرف مذہبی نہیں بلکہ سماجی اصلاح پر بھی مبنی ہے ۔ انھوں نے عورتوں کے حقوق ، غلاموں کی آزادی ، علم کے فروغ اور غربت کے خاتمہ کے لئے جو اقدامات کئے وہ آج بھی ایک مثالی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ پریم چند نے یہ بھی کہا کہ حضرت محمدؐ کا ارشاد ہیکہ کوئی برتری کسی نسل رنگ یا زبان سے نہیں بلکہ عمل سے ہوتی ہے یہ وہ تعلیم ہے جو آج بھی معاشرہ میں انصاف اور امتیاز کے خلاف طاقتور بنیاد راہم کرتی ہے ۔
اسلام کی انسانی مساوات : پریم چند نے لکھا کہ ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کا ایک اہم سبب اُس کا نظریہ برادری تھا ۔ پروفیسر رچرڈ اُپٹن نے بھی اپنے تحقیقی کام میں واضح کیا کہ اسلام نے یہاں کے معاشرتی نظام میں برادری سماجی انصاف اور اُخوت کو فروغ دیا۔ رچرڈ اُپٹن کے مطابق اگرچہ اسلام کی اشاعت کے اسباب خطوں میں مختلف تھے لیکن سب سے نمایاں عنصر یہی تھا کہ اسلام نے مظلوم طبقے کو عزت اور وقار عطا کیا ، اُس نے ظلم کے خلاف بغاوت کا حوصلہ پیدا کیا ۔
بھائی چارگی امن اورمساوات کا پیغام : اسلام اور پیغمبر اسلام کے پیغام کی روح امن اُخوت اور مساوات میں پوشیدہ ہے ۔پریم چند نے اپنی تحریروں میں اسی پیغام کو مضبوطی سے پیش کیا ۔ انھوں نے بتایا کہ اگر مذہب انسان کو تقسیم کرے ، نفرت سکھائے یا کسی طبقہ کو نیچا دکھائے تو وہ مذہب نہیں بلکہ ظلم کا آلہ بن جاتا ہے ۔
پریم چند نے کہاکہ اسلام نے انسان کو یہ سکھایا کہ وہ دوسروں کی عزت کرے ، اُن کے حقوق کا احترام کرے اور ایک بہتر سماج کی تعمیر میں شریک ہو۔ پریم چند نے واضح کیاکہ حضرت محمدؐ نے جس سماجی انصاف کی بنیاد رکھی وہ صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کیلئے تھی ۔ پریم چند کے مطابق یہی پیغام آج کے ہندوستان میں سب سے زیادہ ضروری ہے۔