عبدالجبار
مجوزہ لوک سبھا انتخابات کے بعد جو بھی حکومت آئے گی اس کیلئے سب سے بڑا اقتصادی یا معاشی چیلنج ملک میں پھیلی بیروزگاری ہے، حالیہ عرصہ کے دوران بیروزگاری کی شرح میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ عالمی خبر رساں ایجنسی ’ رائٹرس‘ کی جانب سے ماہرین اقتصادیات کی رائے جاننے کیلئے ایک پول کا اہتمام کیا گیا، اس پول کے مطابق ماہرین اقتصادیات جنہوں نے دنیا کی سب سے بڑی آبادی کے حامل اس ملک کے بارے میں توقع کی تھی کہ جاریہ مالی سال میں اس کی معیشت 6.5 فیصد صحت مندانہ شرح سے نمو پائے گی لیکن ان کی توقعات اور اُمیدوں کے برعکس ہندوستانی معیشت زیادہ فروغ نہیں پاسکی، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستانی معیشت بہت بڑی اور بڑی تیزی کے ساتھ وسعت پاتی نوجوان آبادی کیلئے روزگار کے مواقع یا ملازمتیں پیدا کرنے میں ناکام رہی۔ آپ کو بتادیں کہ ہندوستان دنیا کے ان چنندہ ممالک میں سرِفہرست ہے جہاں کی آبادی میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایسے میں ہندوستان کو نوجوانوں کا ملک بھی کہا جاسکتا ہے لیکن افسو س کہ یہاں نوجوان بیروزگارہیں اور نوجوانوں میں پائی جانے والی اس بیروزگاری کا مسئلہ فی الوقت انتخابی مہم میں چھایا ہوا ہے اور مابعد انتخابات نئی حکومت کیلئے بیروزگاری ایک بہت بڑا چیلنج بنے گی۔ واضح رہے کہ 16 تا 23 اپریل ’رائٹرس‘ نے اپنے پول کے دوران 26 ماہرین اقتصادیات سے بات کی اور ہندوستانی معیشت سے متعلق ان کی رائے جانے کی کوشش کی چنانچہ 26 میں سے 15 ماہرین اقتصادیات جنہوں نے ایک اضافی سوال کا بھی جواب دیا پُرزور انداز میں کہا کہ قومی انتخابات ( عام انتخابات ) کے بعد حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج بیروزگاری کا مسئلہ رہے گا۔SOCIETEGenerale کے ماہر اقتصادیات کنال کناڈآ کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ایک دہے کی تقریباً بیروزگاری ( بیروزگاری کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ) کے باعث حوصلہ شکن مزدوروں ( ورکروں ) کی بڑھتی تعداد نے ہندوستان میں مزدوروں کی شراکت سے متعلق شرح LFPR میں گراوٹ لائی اور یہ گراوٹ ایشیاء کی چار مضبوط معیشتوں میں سب سے زیادہ رہی۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ بی جے پی نے روزگار فراہم کرنے والے بعض موجودہ شعبوں (بنیادی سہولتوں ، مینو فیکچرنگ اور سرکاری ملازمتوں ) پر توجہ مرکوز کی لیکن اس کیلئے جو قدامات ضرور کئے جانے تھے ان میں پیشرفت نہیں کی۔ بناء کسی ٹھوس منصوبہ کے ہندوستان نے امکانی Demographic dividends یا فوائد سے محرومی کا جوکھم لیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے حامیوں کو اس بات کا پورا پورا یقین ہے کہ وہ تیسری میعاد کیلئے بھی منتخب ہوجائیں گے۔ انہوں نے سال 2014 کے عام انتخابات کی مہم میں زور و شور سے وعدہ کیا تھا کہ اگر بی جے پی کو اقتدار ملتا ہے تو ان کی حکومت بیروزگار نوجوانوں کیلئے روزگار اور ملازمتوں کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرے گی۔ (انہوں نے سالانہ دو کروڑ نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا) اس وعدہ کے باوجود حالیہ برسوں میں بیروزگاری کی شرح سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بیروزگار نوجوانوں کو زیادہ ملازمتیں یا روزگار فراہم نہیں کئے گئے ( حکومت حسب وعدہ نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنے میں پوری طرح ناکام ہوگئی ) ایک اور ماہر اقتصادیات کوشک باسو نے بھی پچھلے کچھ دہوں میں بڑے پیمانے پر بیروزگاری میں اضافہ پر تبصرہ کیا۔ واضح رہے کہ مسٹر باسو، حکومت ہند کے مشیر اعلیٰ برائے اقتصادی امور کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے انڈیا ایمپلائمنٹ رپورٹ 2024 کے بارے میں اظہار خیال کیا جس کی اشاعت انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن ILO اور انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن ڈیولپمنٹ IHD نے عمل میں لائی) ملک میں بیروزگاری کی صورتحال کو انڈیا کے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں ایک نئی تشویش سے تعبیر کرتے ہوئے باسو نے ایکس (سابق ٹوئیٹر ) پر کچھ یوں لکھا : ’’ ثانوی ( سیکنڈری ) درجہ یا اس سے بڑھ کر تعلیم حاصل کرچکے نوجوانوں میں بیروزگاری کا جملہ حصہ 35.2 فیصد ( سال 2002) سے بڑھ کر سال 2022 میں 65.7% ہوگیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت بیروزگار نوجوانوں کو روزگار کے مواقع اور ملازمتیں فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اعظم ترین تعلیم جن نوجوانوں کی سیکنڈری ایجوکیشن تک رہی ہو بیروزگار نوجوانوں میں ایسے نوجوانوں کا حصہ 2000 میں 33.2% تھا جو 2022 میں دگنا ہوکر 65.7 فیصد ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی آپ کو یہ بھی بتانا ضروری ہوگا کہ ہندوستان میں جو لوگ بیروزگار ہیں ان میں 83 فیصد نوجوان ہیں۔
اُمید کی کرن : اس طرح کی خطرناک صورتحال میں کانگریس ایک انقلابی انتخابی منشور کے ذریعہ بیروزگار نوجوانوں کیلئے امید کی کرن لے کر آئی جس میں ایسے نوجوانوں کیلئے حق ِ اپرنٹس شپ کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ کانگریس نے انتخابی منشور میں وعدہ کیا کہ اگر مرکز میں اس کی حکومت آتی ہے تو پھر 25 سال سے کم عمر کے نوجوانوں کو اپرنٹس شپ کا حق دیا جائے گا۔ اس پروگرام کے تحت سرکاری یا خانگی فرمس میں 25 سال عمر سے کم ایسے تمام نوجوانوں کو روزگار کی گیارنٹی کا وعدہ کیا گیا جو گریجویٹ ڈگری رکھتے ہوں یا پھر ڈپلوما رکھتے ہوں۔ ان نوجوانوں کو سالانہ ایک لاکھ روپئے اسٹیفنڈ دینے کا بھی وعدہ کیا گیا۔ انتخابی منشور میں ’’ پہلی نوکری پکی ‘‘ کے ٹیاگ لائن سے حقِ اپرنٹس شپ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس طرح کانگریس کے انتخابی منشور میں کئے گئے اس وعدہ نے نوجوانوں کو درپیش بیروزگاری کے مسئلہ کو انتخابی موضوع میں تبدیل کردیا۔