’’حقیقی لفظ‘‘ دغا بازی ہے

   

پی چدمبرم

ٹی وی چیانل کا نام اہمیت نہیں رکھتا، صحافی کا نام اہمیت نہیں رکھتا، چیانل کے خلاف دوسرے معاملات کے متعلق الزامات بھی آج کے کالم سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ آج جو اہم اور کالم سے متعلق ہے وہ قومی سلامتی کے بارے میں حکومت کے اعلیٰ سطح پر لئے گئے فیصلے اور فیصلہ سازی کا عمل ہے۔ اس کالم کا مقصد کسی کے خلاف الزام تراشی کرنا یا پھر اسے بدنام کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد راست بازی پر مبنی ایک راست سوال پوچھنا ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ آیا حساس اور اہم ترین حکومتی فیصلے ایسے فرد سے بھی شیر کئے جاتے ہیں جو فیصلہ سازی عمل کا ایک حصہ نہیں؟ ایک ضمنی سوال یہ ہے کہ آیا اس طرح کے تمام فیصلے سرکاری رازداری کے تحت آتے ہیں؟
ذکر برگ کے لئے بری خبر
یہ معاملات اس طرح باہر آرہے ہیں یا ان کا انکشاف ہو رہا ہے کہ وہ ایک راز کی بات معلوم ہوتے ہیں، سمجھا جاتا ہے کہ یہ معاملات واٹس اپ پر گپ شپ کے دوران ظاہر ہوئے۔ واٹس اپ کے مالک ایک عرصہ سے دعویٰ کرتے آرہے ہیں کہ واٹس اپ پر بات چیت کا مکمل ریکارڈ آخر سے آخر تک خفیہ رکھی جاتی ہے اور ان کی بات چیت تک کسی کو رسائی حاصل نہیں ہے۔ لیکن ایسے افراد موجود ہیں جو معلومات کا سرقہ کرلیتے ہیں، وہ کیسے غیر قانونی طور پر دخل اندازی کرتے ہیں اور سرقہ کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب میں بھی نہیں جانتا۔ لیکن سرقہ کرنے کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہ مارک زکربرگ کے لئے جو فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس اپ کے مالکوں میں سے ایک ہیں اور دنیا کے مالدار ترین افراد میں ان کا شمار ہوتا ہے، ایک بری خبر ہے۔ بہرحال کچھ بھی ہو دو افراد کے درمیان بات چیت برسر عام آگئی ہے جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے شائع شدہ مواد جو اخبارات میں ہو یا سماجی ذرائع ابلاغ میں ناقابل تردید ہے اور متعلقہ افراد اس کی تردید نہیں کرسکتے۔ اگر وہ تردید کرتے ہیں تو معاملہ ختم ہوسکتا ہے۔ جہاں تک اس کالم کا تعلق ہے وہ بعض سوالات کا جواب دینے سے تردید کی صورت میں قاصر رہیں گے۔

ایک سرکاری راز
14 فروری 2009 کو پلوامہ میں ہندوستانی فوجی قافلے پر ایک حملہ ہوا تھا جو بات چیت صحافیوں اور دیگر افراد کے درمیان 23 فروری کو ہوئی درجہ ذیل ہے:
23-02-2019،
10:31 بجے شب، صحافی، ایک اور اطلاع ملی ہے کہ کوئی بڑا واقعہ پیش آنے والا ہے۔
10:33 بجے شب، دوسرا شخص۔ یقین ہے کہ آپ ان کی کامیابی کی بھرپور خواہش رکھتے ہوں گے۔
10:34 بجے شب، دوسرا شخص۔ آپ کی کامیابی کے لئے۔
10:36 بجے شب، صحافی، نہیں جناب پاکستان، کچھ بڑا واقعہ اس بار پیش آنے والا ہے۔
10:37 بجے شب، دوسرا شخص ۔ جاریہ موسم میں یہ بڑا واقعہ پیش آنا صاحب کے لئے اچھی بات ہے۔
وہ انتخابی کامیابی حاصل کریں گے۔
حملہ؟ یا بڑا واقعہ
10:40 بجے شب صحافی : معمول حملے سے بڑا اور اسی وقت
کشمیر پر کوئی بڑا حملہ ہو یا پاکستان حکومت کو اعتماد ہے کہ یہ حملہ عوام کو خوش کردے گا۔
(حقیقی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں)
پلوامہ کا حملہ دہشت گردی کی کارروائی تھا۔ 40 سپاہی ہلاک ہوگئے۔ فوج برہم ہوگئی۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس حملہ کے ذمہ داروں کوپاکستان میں بھرتی کیا گیا اور وہیں انہیں تربیت دی گئی ۔ تین دن بعد 26 فروری کو ہندوستانی فضائیہ کے طیاروں نے پاکستان میں بالاکوٹ کے مقام پر حملے کیا۔ مجھے اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ کون ’’یہ الفاظ‘‘ سنتا ہے۔ وہ شخص میں فرض کرتا ہوں کہ خوش قسمت ہے، وہ درست وقت پر، درست مقام پر موجود تھا۔ مجھے تشویش ہے کہ میں نے یہ الفاظ کیوں کہے۔ غیر سرکاری شخص کے سامنے یہ الفاظ کیوں کہے گئے؟ کہاں کہیگئے؟ اور رازداری معلومات میں شراکت داری کا ارادہ کیا تھا؟ جبکہ بڑے پیمانے پر یہ توقع کی جاتی تھی کہ فوج پلوامہ کے حملے پر جوابی کارروائی کرے گی لیکن کسی شخص نے بھی توقع کی تھی کہ ’’حقیقی الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے‘‘ تاکہ جوابی کارروائی کے ارادہ کو بیان کیا جائے۔ واضح طور پر کسی نے بھی اس حساس اور محفوظ معلومات میں شرکت نہیں کی؟ وہ شخص کون تھا؟
بعض بات چیت خفیہ ہوتی ہے، بعض راز کی ہوتی ہے، بعض انتہائی راز کی ہوتی ہے اور بعض صرف آپ کے مشاہدہ کے لئے ہوتی ہے۔ پاکستان میں حدف پر جوابی حملہ FYEO ہوگا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ تبادلہ خیال کا یہ عمل اور فیصلہ سازی کے اس عمل میں صرف وزیر اعظم، وزیر دفاع، قومی سلامتی محکمہ، فوج اور فضائیہ کے سربراہ اور مغربی فضائی کمان کے سربراہ شامل ہوں گے۔ لڑاکا پائیلیٹس کو حملہ سے چند گھنٹے قبل تفصیلات سے واقف کروائے جاتے ہیں۔ آپ غور کرسکتے ہیں کہ کس نے ان معلومات کا استعمال کیا اور حقیقی الفاظ میں اور محفوظ معلومات میں شراکت داری کی۔
مجھے اس بات کی فکر ہے کہ معلومات میں کسی ایسے شخص کے ساتھ شراکت داری کی گئی (جو ذریعہ کے لئے نامعلوم تھا) ممکن ہے کہ وہ جاسوس ہو یا پاکستان کا مخبر ہو؟ میری دوسری فکر دوسرے شخص کے بارے میں ہے جس نے بات چیت میں حصہ لیا۔ وہ صیانتی زمرہ بندی کے کس شعبہ سے تعلق رکھتا ہے کیا اس نے کسی اور کو بھی، معلومات دی تھیں۔

گہری نگرانی
بات چیت سے جو نقصان آنجہانی وزیر فینانس ارون جیٹلی کی ساکھ کو پہنچا۔
10-04-2019، 12:45 بجے شب
دوسرا شخص:جیٹلی اپنی سب سے بڑی ناکامی کے مقام پر تھے۔
صحافی: میں اس سے مکمل طور پر اتفاق کرتا ہوں۔
صدمہ انگیز بات یہ ہے کہ تمام افراد پر گہری نظر رکھی گئی تھی۔
19-08-2019،
10:08 بجے دن : صحافی : جیٹلی آخری سانس لے رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے دفتر کو یہ نہیں معلوم کہ کرے تو کیا کرے۔ وزیر اعظم چہارشنبہ کے دن فرانس روانہ ہو رہے تھے۔
10:09 بجے دن، دوسرا شخص : کیا وہ ابھی انتقال نہیں کئے ہیں۔
صحافی : ان کی بات کا اعادہ کرتے ہوئے مجھے شام میں کسی بات کی توقع ہے۔ اس کی وجہ سے اس ہفتہ دہلی میں ہونے والی میری ایک اہم میٹنگ ملتوی ہوگئی۔
مجھے افسوس ہے کہ ہمارا ملک، ہماری فوج اور ان کے راز محفوظ نہیں رہے۔ میں ارون جیٹلی کے خاندان کے لئے بھی غمزدہ ہوں جس نے بی جے پی کی خدمت کی ہے (اور اس کی پیشرو جن سنگھ کی) 1975 سے وہ ان کے وفادار رہے ہیں۔