آمنہ بیگم
چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ ایسی باتیں کرتے ہیں ایسے بیانات دیتے اور ایسی تقاریر کرتے ہیں جس سے صرف فرقہ پرستی کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور ان کی ہر بات فرقہ پرستی کی تعریف میں آتے اور اس بارے میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ بہرحال انہوں نے حلال سرٹفکیشن کو دہشت گردی سے جوڑکر حال ہی میں ایک نیا تنازعہ پیدا کردیا۔ ایک ایسے وقت جبکہ بہار میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں اور دوسری ریاستوں میں ضمنی انتخابات کا انعقاد عمل میں آرہا ہے اس طرح کے اشتعال انگیز بیانات کا مقصد رائے دہندوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنا ہوتا ہے۔ فی الوقت یوگی آدتیہ ناتھ کے اشتعال انگیز بیان سیاسی اور سماجی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ کچھ لوگ یوگی آدتیہ ناتھ کے بیان کی یہ کہتے ہوئے تعریف کی کہ بی جے پی حکومت مذہبی خوشامدی کے خلاف سخت اقدامات کررہی ہے لیکن اکثر لوگوں اور اپوزیشن کا یہی کہنا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کے قبیل کے دیگر عناصر کے اشتعال انگیز بیانات و تقاریر مسلم برادری کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کررہے ہیں۔ انہیں شک کے دائرے میں لا رہے ہیں۔ آدتیہ ناتھ نے نہ صرف حلال سرٹفکیشن پر پابندی عائد کرنے کی بات کی بلکہ انہوں نے حلال سرٹیفکیشن کو معاشرہ کے خلاف ایک ہتھیار اور خطرہ سے تعبیر کیا۔ اس لئے یہ بھی دعویٰ کیا کہ حلال سرٹفکیشن کی جو صنعت ہے وہ 25 ہزار کروڑ روپے مالیتی ہے اور اس سے جو روپیوں (آمدنی) پیدا ہو رہی ہے وہ آمدنی دہشت گردی کی فنڈنگ میں استعمال کی جارہی ہے۔ لوجہاد میں اس کا استعمال ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ حلال سرٹفکیشن کے ذریعہ حاصل ہونے والی آمدنی مذہبی تبدیلی کے لئے استعمال کی جارہی ہے۔ اگر یوگی آدتیہ ناتھ کے اس اشتعال انگیز بیان پر غور کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے جو کچھ کہا بڑھا چڑھاکر کیا، اور یہ بھی ایک حقیقت ہیکہ یہ سارے بیانات عوام کے ذہنوں میں خوف و دہشت پیدا کرنے کے لئے جان بوجھ کر تیار کئے گئے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے راقم الحروف یوگی کے بیان کو لغو اوور پریشان کن سمجھتی ہے کیونکہ حلال کوئی خفیہ ایجنڈہ نہیں یہ بہت سیدھا سادہ ہے اور نجی مذہبی عمل ہے حلال عمل یہ دیکھتا ہے کہ ہم جو کھا رہے ہیں ہم جو استعمال کررہے ہیں وہ حلال ہے یا نہیں مثال کے طور پر مویشیوں کی ممنوعہ مصنوعات، شراب یا ممنوعہ طریقہ سے ذبح کردہ جانوروں کا گوشت ممنوع ہے۔ اس لئے ہم اسے بالکلیہ طور پر نظرانداز کرتے ہیں۔ دوسری طرف آپدیکھیں گے کہ جین طبقہ کے لوگ گوشت کھانے سے گریز کرتے ہیں وہ گوشت خور نہیں سبزی خور ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہندو SATTVIC اصولوں پر عمل کرتے ہیں جبکہ یہودی کو شور پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود جب مسلمانوں کے حلال سرفٹفکیشن کی بات آتی ہے تو جان بوجھ کر اسے ایک سازش میں موڑ دیا جاتا ہے۔ حلال سرٹفکیشن سیدھا سادھا اور خالص نجی مذہبی ادارہ کا کام ہے جس میں کھانے پینے کے اسلامی آداب کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور مختلف کمپنیاں حلال سرٹفکیشن مسلم کمیونٹی کو غذائی اشیاء کی فراہمی کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ اکثر مسلمانوں کو حلال سرٹفکیٹ کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ انہیں اچھا طرح علم ہوتا ہے کہ کونسی غذا حلال ہیں اور کونسی حرام (ممنوعہ) ہیں تاہم بعض مقامات پر حلال سرٹفکیٹ اس لئے ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ وہاں کے ماحول کے لحاظ سے غذائی اشیاء یا مصنوعات کے حلال ہونے سے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں لیکن یہ شکوک و شبہات اس وقت دور ہو جاتے ہیں جب غذائی اشیاء کے پیاکٹس پر باضابطہ حلال درج ہوتا ہے۔ تاہم مسلمانوں ہندوؤں، عیسائیوں کسی کی جانب سے بھی غیر قانونی سرگرمیوں کی فنڈنگ کی جارہی ہے تب ریاست کا یہ فرض ہیکہ اس کی تحقیقات کرتے ہوئے اس کا انسداد کرے ہاں یہاں ایک اور بات اہم ہیکہ آپ کسی مذہبی عمل یا پریکٹس پر پابندی عائد نہیں کرسکتے یا بنا کسی تحقیق و تصدیق کے ساری کمیونٹی یا برادری کو آپ بدنام نہیں کرسکے جس چیز نے مجھے فکرمند کیا وہ یوگی جیسے لوگوں کے لب و لہجہ ان کی زبان کے پیچھے کار فرما ارادے ہیں۔ اس سے لاکھوں کروڑہا لوگوں کو یہ اشارہ ملتا ہے کہ ان کا عقیدہ ان کی روزمرہ کے اعمال یعنی کام کاج کچھ نہیں بلکہ سیاست ہے۔ یہ صرف ایک سرٹفکیٹ پر پابندی عائد کرنا نہیں بلکہ اس طرح کے خطابات اور بیانات کا مقصد ایک ایسا معاندانہ ماحول پیدا کرنا ہے جہاں ہر چیز مسلمانوں سے متعلق ہے اور غیر مسلموں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے کی کوشش ہیکہ مسلمان ایک امکانی خطرہ ہیں اور جب اس طرح کے اشتعال انگیز بیانات ریاست کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے منظر عام پر آئیں تو یہ یقینا مسلمانوں پر شک و شبہ کرنے ان سے امتیاز و جانبداری برتنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور متنوع و مشمولیاتی جمہوریت کے لئے خطرہ ہے۔ یوگی کا یہ دعویٰ کے حلال سرٹفکیشن کی صنعت 25 ہزار کروڑ مالیتی ہے جس کے ذریعہ ’’لوجہاد‘‘ یا مذہبی تبدیلی کے لئے مالیہ فراہم کیا جارہا ہے بالکل بے بنیاد ہے۔ ایک اہم دستوری عہدہ پر فائز شخص کے لئے یہ ذیب نہیں دیتا کہ وہ اس طرح کے غیر غلط اور بے بنیاد دعوے کرے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یوگی کے پاس یہ اعداد کہاں سے آئے؟ بناء کسی تصدیق کے اسے اعداد و شمار عوامی مباحث میں پیش کرنا اور لوگوں میں خوف و دہشت پیدا کرنے کے لئے ایسا کرنا کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہے۔ کتنی عجیب بات ہیکہ یوگی اور ان کی قبیل کے لوگ حلال سرٹفکیشن پر پابندی کی باتیں کرتے ہیں لیکن جب اکثریت کی بات آتی ہے تو اس پر اعتراض نہیں کرتے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی اس بارے میں جاننا نہیں چاہتا۔ یوگی کی تقریر یا بیان کا دوسرا حصہ لوجہاد کے بارے میں تھا سیاسی اسلام سے متعلق تھا اور اس کا کسی نے تنقیدی جائزہ تک نہیں لیا۔ (بشکریہ :دی پرنٹ)