عیسائی طبقہ کا بھی قبرستان کیلئے اراضی کا مطالبہ، اراضی نہیں تو ووٹ نہیں کی سیاست
حیدرآباد۔16۔اکٹوبر(سیاست نیوز) حلقہ اسمبلی جوبلی ہلز کے انتخابات پر قبرستان کی سیاست چھانے لگی ہے اور مسلم رائے دہندوں کی جانب سے قبرستان کے لئے اراضی کے مطالبہ اور اس مسئلہ پر ہونے والی سیاست ابھی جاری ہے لیکن اب عیسائی تنظیموں کے ذمہ داروں نے بھی حکومت سے ان کے دیرینہ مطالبات میں قبرستان کے لئے اراضی کی تخصیص کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر عیسائی طبقہ کے لئے قبرستان کے لئے اراضی مختص نہیں کی جاتی ہے تو ایسی صورت میں جوبلی ہلز ضمنی انتخابات میں عیسائی طبقہ کے ووٹوں کی توقع بھی نہ رکھی جائے ۔ بتایاجاتا ہے کہ ریاستی وزراء بالخصوص حلقہ اسمبلی جوبلی ہلز کے ضمنی انتخابات کے لئے بطور انچارج خدمات انجام دینے والے وزراء سے زائد از 200 عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والے ذمہ داروں اور پادریوں نے ملاقات کرتے ہوئے قبرستان کے لئے اراضی کی تخصیص کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ریاستی حکومت کی جانب سے فوری طور پر سرکاری اراضیات کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں عیسائی قبرستان کے لئے مختص کرنے کے احکامات جاری کئے جائیں اور اس کے بعد ہی عیسائی طبقہ کے ووٹ کی توقع کریں کیونکہ عیسائی قبرستان جو شہر حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں ان میں اب جگہ مکمل ہوچکی ہے اور تدفین کے لئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس مسئلہ سے کانگریس قائدین کو ریاستی اسمبلی انتخابات جو 2023 میںمنعقد ہوئے تھے اس سے قبل بھی واقف کروایا گیا تھا اور کانگریس نے اقتدار میں آنے کی صورت میں عیسائی برادری کے اس مسئلہ کو فوری طورپر حل کرنے کا تیقن دیا تھا لیکن اب جبکہ ریاست میں کانگریس کو اقتدار حاصل ہوئے 22ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن اس سلسلہ میں کوئی پیشرفت نہیں کی گئی اسی لئے اب عیسائی برادری کی جانب سے بھی جوبلی ہلز ضمنی انتخابات سے قبل قبرستان کی اراضی کی تخصیص کا مطالبہ شدت اختیار کرنے لگا ہے ۔حلقہ اسمبلی جوبلی ہلز کے ضمنی انتخابات کے اعلان سے قبل سے ہی جوبلی ہلز کے نوجوانوں کی جانب سے قبرستانوں کے لئے اراضی کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج شروع کردیا گیا تھا اور برسراقتدار جماعت کی جانب سے مسلم قبرستان کے لئے موقوفہ اراضی کی تخصیص کے لئے اقدامات بھی کئے گئے تھے لیکن اس سلسلہ میں کی جانے والی دو کوششیں ناکام ہونے کے بعد اب کہا جا رہاہے کہ ایرہ گڈہ قبرستان کے لئے راستہ کی کشادگی کا معاملہ جو عدالتی کشاکش کا شکار ہوچکا ہے اس معاملہ میں ریاستی محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے راحت حاصل کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے حالانکہ اس قبرستان کو جس کی حصار بندی اور اطراف کئے جانے والے قبضہ جات کے ذریعہ بند کردیا گیا تھا وہ قبرستان ہی ہے ۔مسلم قبرستانوں کا مسئلہ ابھی زیر التواء ہے ایسے میں عیسائی برادری کی جانب سے ان کے لئے مخصوص قبرستان کی اراضی کی تخصیص کے مطالبہ نے ریاستی حکومت کے ذمہ داروں کو حیرت میں مبتلاء کردیا ہے کیونکہ لوگ زندگی میں راحت سے زیادہ مرنے کی بعد کی فکر کر رہے ہیں۔3