حلیف جماعتیں ایک دوسرے کے مقابل

,

   

بہار اور مہاراشٹرا میں اتحاد ۔ عوام میں تجسس

حیدرآباد۔14جنوری(سیاست نیوز) بہار میں انتخابات میں حصہ لینے کیلئے جتن مانجھی سے اتحاد اور مہاراشٹر ا میں انتخابات میں حصہ لینے کیلئے پرکاش امبیڈکر کے ساتھ اتحاد ممکن ہے لیکن جس ریاست میں حکومت کے حلیف ہیں وہاں بلدی انتخابات میں حصہ علحدہ علحدہ لینے کا فیصلہ کیا جانا کہاں تک درست ہے! تلنگانہ میں بلدی انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور ان انتخابات میں تمام سیاسی جماعتیں علحدہ علحدہ طور پر میدان میں ہے اور حکومت کی حلیف ہونے کی دعویدار سیاسی جماعت کی جانب سے بھی امیدوار میدان میں اتارے گئے ہیں اور کہا جا رہاہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان کوئی انتخابی مفاہمت نہیں ہے بلکہ دونوں ہی ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں۔تلنگانہ راشٹرسمیتی کی جانب سے واضح کیا جاچکا ہے کہ وہ مجلس کے ساتھ کسی قسم کی انتخابی مفاہمت نہیں کی ہے اور مجلس نے بھی واضح کردیا ہے کہ وہ بھی کسی کے ساتھ اتحاد کے بغیر بلدی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ دونوں سیاسی جماعتوں کے قائدین کی انتخابی مہم بھی شروع ہوچکی ہے لیکن حلیف جماعت کی جانب سے اب تک تلنگانہ راشٹرسمیتی کو نشانہ بنائے جانے کی کوئی اطلاع نہیں ہے جبکہ تلنگانہ راشٹر سمیتی کی جانب سے بھی اب تک اپنی حلیف جماعت کو کسی طرح بھی نشانہ نہیں بنایا گیا ۔ حلیف جماعت جو کہ تلنگانہ راشٹر سمیتی امیدواروں کے مقابل میں اپنے امیدوار میدان میں اتار چکی ہے وہ اب بھی کانگریس کو نشانہ بنا رہی ہے جبکہ ہندستان اور تلنگانہ میں کانگریس 6 سال سے اقتدار میں نہیں ہے ۔

انتخابات کے دوران حکومت کی کامیابی اور ناکامی پر مباحث کئے جا تے ہیں لیکن تلنگانہ راشٹرسمیتی اور اس کی حلیف سیاسی جماعت کی جانب سے کانگریس کو اس طرح نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جیسے کانگریس ریاست میں اقتدار میں ہے۔ بلدی انتخابات کے دوران بنیادی مسائل عوام کی اولین ترجیح ہوا کرتے ہیں اور بلدیات کی پسماندگی انتخابات کا موضوع ہوتا ہے اور ریاست کی بلدیات کی ابتر صورتحال کے لئے ریاستی حکومت کو نشانہ بنایا جانا چاہئے لیکن ریاستی حکومت کو نشانہ بنائے جانے کے بجائے برسراقتدار جماعت اور حلیف جماعت کی جانب سے کانگریس کو نشانہ بنایا جا رہاہے اور حلیف جماعت بلدی انتخابات میں ریاستی حکومت کی ناکامیو ں کے بجائے مرکزی حکومت کے اقدامات کو موضوع بحث بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اضلاع کے عوام کا کہنا ہے کہ ریاست میں بلدی انتخابات کے دوران بنیادی مسائل پر بات چیت نہ کئے جانے اور تلنگانہ راشٹر سمیتی اور اس کی حلیف سیاسی جماعت کے امیدواروں کی میدان میں موجودگی کے باوجود ایک دوسرے کو نشانہ نہ بنائے جانے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں کے مابین خفیہ انتخابی مفاہمت ہوچکی ہے اور دوستانہ مقابلہ کیا جا رہاہے اسی لئے ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز کرتے ہوئے دونوں جماعتیں کانگریس کو اپنا مشترکہ دشمن تصور کر رہی ہیں اور کانگریس کو ہی نشانہ بنایا جارہا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو مرکزی کی پالیسیوں کے نام پر تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔