واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق غزہ پر نہ اسرائیل کی حکومت ہوگی اور نہ حماس کی ، نئے موقف سے امید کی کرن نظر آنے لگی
اسرائیل اور حماس کے موقف میں نئی پیش رفت کی اطلاعات کے بعد غزہ جنگ بندی کے حوالے سے امید کی کرن نظر آرہی ہے۔ میڈیا میں انکشاف کیا گیا ہیکہ اسرائیل اور حماس اس بات پر متفق ہیں کہ معاہدہ کے دوسرے مرحلہ میں دونوں میں سے کوئی بھی غزہ پر حکومت نہیں کرے گا۔ ایک عبوری حکومت قائم ہوگی جو معاہدہ کے دوسرے مرحلے کا آغاز کرے گی۔ اس دوران فلسطینی اتھارٹی کی حمایت یافتہ فلسطینی فورس اس پٹی پر حکومت کرے گی۔ جب حماس نے ثالثوں کو مطلع کیا ہیکہ وہ مذاکرات کے دوران عبوری حکومتی انتظامات کے حق میں اقتدار چھوڑنے کیلئے تیار ہے۔تفصیلات کے حوالے سے گردش کرنے والی رپورٹس کے مطابق حماس نے غزہ میں ایک سویلین حکومت اور الفتح کے 2500 ارکان یا فلسطینی اتھارٹی کے قریبی افراد پر مشتمل ایک فورس کے حق میں غزہ کی حکمرانی کو چھوڑنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔یہ بات واشنگٹن پوسٹ نے حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات سے واقف ایک امریکی اہلکار کے حوالے سے کہی ہے۔ پوزیشنوں میں یہ نئی پیش رفت ہے جو حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کے اسرائیل کے مطالبے کو پورا نہیں کرتی اور نہ ہی یہ حماس کے غزہ کی پٹی پر حکومت کرنے کے مطالبے کو پورا کرتی ہے تاہم حماس کے جنگ کو فوری روکنے کے مطالبے کو پورا کرتی ہے۔ دوسرا متنازعہ مسئلہ نیٹزاریم اور فلاڈیلفیا کے محوروں پر موجود اسرائیلی فورس کا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل نے حفاظتی ضمانتوں کے ساتھ پیچھے ہٹنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔جنگ بندی کی شرط کے متعلق لیکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حماس نے تحریری گارنٹی لینے کی شرط چھوڑ دی ہے اور وہ سلامتی کونسل کے فیصلے پر ایک فریم ورک معاہدے کے طور پر مطمئن ہے۔ اسرائیل نے یہ شرط رکھی ہے کہ اگر حماس نے اپنی طاقت کو دوبارہ بنانے کی کوشش کی تو وہ لڑائی دوبارہ شروع کر دے گا۔یرغمالیوں اور قیدیوں کا مسئلہ ابھی زیر بحث ہے۔ چھوڑے جانے والوں کی تعداد اور نام کیا ہیں؟، پہلے کون نکلے گا اور بعد میں کون، یہ سب ابھی طے ہونا ہے۔ غزہ میں تعمیر نو بھی ایک کٹھن مسئلہ ہے اور اس پر ابھی بات چیت جاری ہے۔ ان مسائل پر حماس اور اسرائیل دونوں پر بڑے دباؤ ہیں۔اس تناظر میں وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے جمعرات کو کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے اور غزہ کی پٹی میں یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی کیلئے بہت سی تفصیلات ابھی باقی ہیں۔اسلامی تحریک مزاحمت )حماس( نے تصدیق کی ہے کہ اسے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کیلئے ہونے والے مذاکرات کے بارے میں ثالثوں کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔ تحریک نے کہا ہے کہ اسرائیل مذاکرات کے اس دور کو ناکام بنانے کیلئے وقت لینے میں تاخیر کر رہا ہے۔دوسری جانب اسرائیلی وزیر دفاع گیلنٹ نے کہا ہے کہ انہوں نے اسرائیل میں امریکی ایلچی سے جنگ بندی معاہدے اور زندہ یرغمالیوں کی مسئلے کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا۔
گیلنٹ نے آنے والے دنوں میں اسرائیلی فوج کو گولہ بارود کی ایک اہم کھیپ پہنچانے کے طریقوں کا جائزہ لینے سے متعلق دیگر بات چیت کا بھی حوالہ دیا۔غزہ کی پٹی میں سول ڈیفنس سروس نے تقریباً دو ہفتے جاری رہنے والی زمینی کارروائی کے بعد اسرائیلی فوج کے انخلا کے بعد غزہ سٹی کے مشرق میں واقع شجاعیہ کالونی سے 60 سے زیادہ لاشیں برآمد کرنے کا اعلان کیا۔ شہری دفاع کے ترجمان نے کہا اسرائیلی فوج کی جانب سے شجاعیہ کالونی میں 85 فیصد سے زائد رہائشی عمارتوں کو تباہ کرنے کے بعد بھی درجنوں لاشیں ملبے کے نیچے موجود ہیں۔ دوسری طرف ’’ جی سیون‘‘ ممالک کے وزرا نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں نئی بستیوں کی تعمیر کو توسیع دینے کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔