یہ صرف غزہ کا مسئلہ نہیں ‘ مشرقِ وسطیٰ میں طویل عرصہ سے درکار امن کا موقع‘ امریکی صدر کا احساس
واشنگٹن ۔4؍اکتوبر( ایجنسیز )حماس کی جانب سے زیادہ تر مثبت ردعمل کے بعد امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ حماس امن کیلئے تیار ہے، تل ابیب غزہ پر فوری بمباری روک دے۔میڈیا کے مطابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جمعہ کی شب تیز رفتار واقعات کے سلسلے کے بعد اعلان کیا کہ فلسطینی گروپ ’حماس‘ نے ان کے 20 نکاتی امن منصوبے پر ’زیادہ تر مثبت‘ ردعمل ظاہر کیا ہے اوروہ امن کیلئے تیار ہے، اس کے ساتھ ہی انہوں نے تل ابیب سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر غزہ پر بمباری بند کرے۔یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب امریکی صدر نے حماس کو ایک الٹی میٹم دیا تھا کہ وہ اتوار تک ان کے منصوبے پر اپنا جواب پیش کرے۔ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا تھا کہ ہر ملک اس پر دستخط کر چکا ہے، اگر یہ آخری موقع پرسمجھوتہ نہ ہوا تو حماس کے خلاف وہ قیامت خیز طوفان برپا ہوگا جو دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔بعد ازاں، قطری ثالثوں کے ذریعے حماس نے اپنا جواب پہنچایا جسے صدر ٹرمپ نے اپنے ’ٹروتھ سوشل‘ پر شیئر بھی کیا۔اپنے بیان میں حماس نے کہا کہ وہ منصوبے کے کچھ پہلوؤں سے اتفاق کرتی ہے جن میں غزہ میں موجود اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور علاقے کی انتظامیہ سے دستبرداری شامل ہیں۔گروپ نے کہا کہ وہ دیگر نکات پر بات چیت کرنے کیلئے تیار ہے میڈیاکے مطابق ان نکات میں گروپ کی غیر مسلح ہونے کی شرط بھی شامل ہے۔وائٹ ہاؤس کے امن منصوبے کی اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے بھی حمایت کی ہے اس میں جنگ بندی، 72 گھنٹوں کے اندر اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، حماس کا غیر مسلح ہونا اور اسرائیل کی بتدریج پسپائی شامل ہیں۔اپنے تازہ بیان میں حماس نے کہا کہ وہ عرب، اسلامی اور بین الاقوامی کوششوں کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی کوششوں کی بھی قدر کرتے ہیں، جو غزہ کی جنگ ختم کرنے، قیدیوں کے تبادلے، فوری امداد کی فراہمی، غزہ کے قبضے کے خاتمے اور فلسطینی عوام کی جبری بے دخلی کے خلاف ہیں۔بیان میں مزید کہا گیا کہ گروپ، صدر ٹرمپ کی تجویز میں بیان کردہ فارمولے کے مطابق تمام اسرائیلی قیدیوں (زندہ یا باقیات) کی رہائی پر آمادگی ظاہر کرتا ہے، بشرطیکہ میدان میں اس کیلئے عملی حالات موجود ہوں۔گروپ نے یہ بھی کہا کہ وہ فوری طور پر ثالثوں کے ذریعے مذاکرات میں شامل ہونے کیلئے تیار ہے تاکہ رہائی کی تفصیلات پر بات کی جا سکے۔تاہم حماس کے سینئر رہنما موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ 72 گھنٹوں کے اندر قیدیوں اور نعشوںکی حوالگی نظریاتی بات ہے، زمینی حقائق میں ممکن نہیں۔انہوں نے ’مڈل ایسٹ آئی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے قومی طور پر اتفاق کیا ہے کہ غزہ کا انتظام غیر جانبدار افراد کے سپرد کیا جائے اور یہ فلسطینی اتھارٹی کے تحت ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس اسرائیلی قبضے کے خاتمے سے پہلے غیر مسلح نہیں ہوگی اور غزہ کے مستقبل سے متعلق امور پر جامع فلسطینی قومی فریم ورک کے اندر بات ہونی چاہیے جس کا حماس بھی حصہ ہوگی۔انہوں نے کہا کہ گروپ اپنے اور اپنے ہتھیاروں سے متعلق تمام معاملات پر مذاکرات کرے گا۔ ٹرمپ نے لکھا کہ ’حماس کے حالیہ بیان کی بنیاد پر، میرا یقین ہے کہ وہ پائیدار امن کیلئے تیار ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت حالات بہت خطرناک ہیں، ہم تفصیلات پر بات چیت کر رہے ہیں، یہ صرف غزہ کا مسئلہ نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں طویل عرصے سے درکار امن کا موقع ہے۔تاہم حماس کے رہنما محمود مرداوی نے میڈیاکو بتایا کہ امریکی تجویز مبہم ہے اور اس پر مزید مذاکرات کی ضرورت ہے۔ابھی یہ واضح نہیں کہ امریکہ یا اسرائیل مزید مذاکرات کیلئے تیار ہوں گے یا نہیں۔