بیروت: حماس کی قیادت قطر سے عراق کیلئے روانہ ہونے کا منصوبہ بنا رہی ہے کیونکہ اس پر امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے تجویز کردہ جنگ بندی معاہدے کو قبول کرنے کیلئے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔عراقی رہ نماؤں نے گذشتہ ماہ حماس کی قیادت کو بغداد منتقل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ ایک سینیر عراقی قانون ساز نے دی نیشنل اخبار کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا بغداد حماس کی میزبانی کیلئے تیار ہے۔رپورٹ کے مطابق ایران کو بغداد میں حماس کے رہنماؤں، دفاتر اور ملازمین کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کرنا ہے۔یہ انتظام تحریک حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ اور عراقی اور ایرانی حکومتوں کے نمائندوں کے درمیان بات چیت کے بعد سامنے آیا ہے۔ ان مذاکرات کی تصدیق عراق کے ایک سینیر رکن پارلیمنٹ اور سیاسی جماعت کے رہ نما نے دی نیشنل اخبار سے گفتگو میں کی ہے۔اخبار نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ حماس کی سکیورٹی اور لاجسٹک ٹیمیں اس اقدام کی تیاریوں کی نگرانی کیلئے بغداد پہنچی ہیں۔ رپورٹ میں تحریک کے ساتھ قریبی تعلق رکھنے والے عراقی پارلیمنٹ کے ایک ممتاز رکن کے حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ ”اس اقدام پر گذشتہ مئی میں حماس کے سیاسی رہ نما اسماعیل ہنیہ اور عراقی اور ایرانی حکومتوں کے نمائندوں نے تبادلہ خیال کیا تھا۔رکن پارلیمنٹ نے وضاحت کی کہ “اس ممکنہ قدم کا گذشتہ ماہ ھنیہ اور عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السودانی نے فون کے ذریعے الگ الگ جائزہ لیا تھا”۔ممتاز عراقی رکن پارلیمنٹ نے نیشنل اخبار کو بتایا کہ “عراقی سیاسی گروہوں میں حماس کے بغداد جانے کے بارے میں کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔ خاص کر کردوں اور کچھ سنیوں کو خدشہ ہے کہ اس سے امریکہ کے ساتھ اختلافات مزید گہرے ہوں گے۔ اتفاق رائے نہ ہونے کے باوجود حماس کی میزبانی کا حکومتی فیصلہ واپس نہیں لیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ بغداد عراق میں حماس کی اعلیٰ سطحی موجودگی کو برقرار رکھنے کے خیال کا خیرمقدم کرتا ہے۔ حماس کے رہنماؤں نے ابھی تک اس حوالے سے کسی تاریخ کا تعین نہیں کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ حماس نے رواں ماہ بغداد میں سینیئر اہلکار محمد الحافی کی سربراہی میں ایک سیاسی دفتر کھولا ہے جب کہ چند ہفتوں میں شہر میں میڈیا آفس کھولنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔