حکمران بی جے پی اور اپوزیشن میں طاقت کا عدم توازن

   

غضنفر علی خان
2009 ء کے عام چناؤ کے بعد جو نتائج آئے ان میں بی جے پی کی عوامی مقبولیت ایک طرح سے تسلیم کرلی گئی ہے۔ اپوزیشن بشمول کانگریس پارٹی اپنے نام نہاد اتحاد گھٹ بندھن کے باوجود اس قدر کم تعداد میں منتخب ہوئی کہ اس کے وجود اور عدم وجود میں کوئی فرق نہ آیا ۔ 17 ویں پارلیمنٹ کے ابتدائی اجلاس میں جس میں نئے ارکان کے ساتھ خود وزیراعظم مودی نے حلف لیا ۔انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ اپوزیشن خود کے عوامی موقف سے مایوس نہ ہو۔ پہلی مرتبہ اپنی دوسری میعاد کی پہلی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کے لئے اپوزیشن کا ہر لفظ بے حد اہم ہوگا ۔ اگر اخلاص نیت سے انہوںنے یہ بات کہی ہو تو اس کا خیرمقدم ہونا چاہئے ۔ جب کبھی بی جے پی جیسی بے راہ روی پارٹی کوئی معقول بات کرتی ہے تو اس پر ہر کسی کو تعجب ہوتا ہے ، انتخابی نتائج کے بعد یہ سمجھا جارہا تھا کہ 336 ارکان کی طاقت بی جے پی کے اقتدار کے نشہ کو اور تیز تر کردے گی ۔ اُن کی اس تقریر میں انہوں نے ایک طرف اپوزیشن ارکان کو دلاسہ دیا ہے تو دوسری طرف خود اپنی پارٹی میں موجود انتہا پسند عناصر کو بھی یہ نصیحت کی ہے کہ وہ اپوزیشن کا احترام کریں۔ یہ دونوں باتیں ایک ذمہ دار حکومت کے لئے لازمی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں اپوزیشن بے حد اہم رول ادا کرتی ہے ۔ ہماری جمہوریت میں بسا اوقات اپوزیشن طاقتور رہی ہے۔ کئی اور مثالیں ایسی ہیں جس میں اپوزیشن نہ ہونے کے باوجود یا برائے نام ہونے کے باوجود حکمراں پارٹی نے جمہوری اقدار کو اور جلا بخشی ۔ مثال کے طور پر اندرا گاندھی کا نام لیا جاسکتا ہے جن کے انتخابات میں جو 1977 ء کے کانگریس کی شرمناک شکست کے بعد ہوئے تھے ، محترمہ اندرا گاندھی نے اقتدار پر واپسی کرتے ہوئے 351 نشستیں حاصل کی تھیں لیکن انہوں نے کبھی اپنے اس عددی موقف اور بڑھوتری کا کوئی ایسا فائدہ نہیں دکھایا جوان کے لئے نقصان دہ ہوتا ہو۔ اسی طرح سے ان کے قتل کے بعد ان کے صاحبزادے راجیو گاندھی نے تو 415 نشستیں جیت کر اپوزیشن کا عملاً صفایا کردیا تھا لیکن راجیو گاندھی نے بھی اپوزیشن کا احترام برقرار رکھا ۔ یہ کانگریس کی حکمت عملی کا ایک لازمی جز ہے کہ وہ اپوزیشن کو کبھی ختم کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ کم و بیش موقف آج بی جے پی کو حاصل ہے اور نریندر مودی اس پارٹی کے مقبول عام لیڈر ہیں۔ اس بات سے قطعی کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وزیراعظم کی حیثیت سے انہوں نے اپوزیشن کو جو دلاسہ اور تسلی دی ہے وہ چیز جمہوریت کے احترام کی علامت ہے ۔ وقتی ضرورت کا تقاضہ بھی ہے ۔ اسی پارلیمانی جمہوریت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ، اگر اس میں ایک مضبوط اور طاقتور اپوزیشن نہ ہو۔ انگریزی زبان کی یہ بری مقبول کہاوت ہے کہ قطعی اکثریت کے نتیجہ میں واقعی کرپشن پیدا ہوتا ہے ۔ اس وقت بی جے پی کم و بیش اسی موقف میں ہے ، اپنی حاصل کردہ قطعی اکثریت کے زعم میں وہ کیسے پارلیمانی جمہوریت میں ایک وسیع النظر حکومت چلاسکتی ہے ۔ شاید نریندر مودی کو خود اپنی پارٹی میں موجود بے اعتدال لیڈروں سے یہ ڈر ہے کہ وہ موجودہ کمزور اپوزیشن کے عددی موقف کی وجہ سے غیر جمہوری اور غیر دستوری قدم اٹھائیں گے۔ اپوزیشن اگرچہ کے کوئی عددی موقف نہیں رکھتی ہے لیکن وہ بھی اگر ٹھیٹ مسائل کی بنیاد پر اپنا رول ادا کرے تو اس کی افادیت اس کمزور موقف کے باوجود برقرار رہ سکتی ہے ، یہاں بھی سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ کیا پارلیمانی جمہوریت میں حکومت اپنے ہر فیصلے پر غلط ثابت ہوسکتی ہے یا قومی پرسنل لا میں اس کا موقف صحیح ہونے کے باوجود اپوزیشن کی مخالفت کی وجہ سے بڑا سمجھا جاتا ہے ۔ اپوزیشن کی اپنی کچھ ذمہ داریاں بھی ہوا کرتی ہیں جب یہ مانا جاتا ہے کہ جمہوریت میں اپوزیشن کا کلیدی رول ادا کرتی ہے تو اپوزیشن کو ہر قومی و بین الاقوامی مسئلہ پر اپنا احتساب کرنا چاہئے ۔ ہر وہ بات جو حکومت کہتی ہے اس کا غلط ہونا ضروری نہیں ہے ۔ ہر مسئلہ پر اپوزیشن اور حکومت کا جداگانہ نقطہ نظر ہوتا ہے ۔ پارلیمان کا ایوان وہ جگہ ہے جہاں دونوں ا پنے موقف کوپیش کرتے ہیں اور مخالفت کے باوجود کوئی مشترکہ حکمت عملی طئے کرتے ہیں ۔ حکومت کو بھی خواہ وہ کسی پارٹی کی بھی ہو یہ سمجھنا چاہئے کہ بعض مسائل پر اپوزیشن کا نقطہ نظر قومی مفادات کے پس منظر میں درست ہوتا ہے ۔ ہر بات نہ تو اپوزیشن کی صحیح ہوسکتی ہے اور نہ ہی حکمراں پارٹی کوئی فرشتوں کی جماعت ہوتی ہے جن سے کوئی غلطی نہیں ہوسکتی ۔ دونوں انسانی عقل و فہم سے چلتے ہیں ، ان میں (اپوزیشن اور حکومت) صرف اعتماد کا رشتہ ہوسکتا ہے۔ دونوں ایک ہی ایوان میں مسائل پر اختلاف کے باوجود ساری قوم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں چنندہ ارکان بھی شامل ہوسکتے ہیں جن میں اختلاف رائے لازمی طورپر ہوتا ہے ۔ اس لئے صرف معقولیت پسندی ہی وہ نسخہ ہے جو دونوں کے لئے شفاء بخش ثابت ہوتا ہے نہ اپوزیشن کو اپنے عددی موقف سے خوف زدہ ہونا چاہئے اورنہ حکمراں جماعت کو اپنی عددی برتری پر کسی گمراہی کا شکار ہونا چاہئے بلکہ جیسا کہ اپوزیشن کیلئے معقولیت پسندی لازمی ہے ۔ اس سے زیادہ حکمراں پارٹی کے لئے یہ چیز لازمی ہے ۔ دونوں کو عوامی نمائندوں کی حیثیت سے ملک و قوم کی خدمت انجام دینی پڑتی ہے ۔ محض حکمرانی ، اقتدار اور برتری کی بنیاد پر فیصلے نہیں کئے جاسکتے، ہر فیصلہ میں قومی مفادات کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے ، اس مسلمہ اصول کے بغیر کوئی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ ہمیشہ نہ تو اپوزیشن درست ہوسکتی ہے اور نہ اپوزیشن کا صحیح ثابت ہونا ضروری ہے ۔ اس توازن کو جو ایک نفسیاتی اور ذہنی رویہ سے تعلق رکھتا ہے ۔ بعض وقت دونوں فریق مبرا نظر آتے ہیں۔ اس وقت بھی پارلیمنٹ میں یہی عدم توازن دیکھا جارہا ہے ۔ بعض مسائل پر یقیناً دونوں میں شدید اختلاف ہوسکتا ہے۔ مثلاً پچھلے 45 برس میں ہندوستان میں بیروزگاری کی شرح میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اپوزیشن بیروزگاری کے مسئلہ پر حکومت سے سوالات کرے گی اور اس کو گھیرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی ۔ ایسی کسی بھی کوشش کو حکومت اگر اس کے لئے پیدا کردہ مخالفت نہ سمجھے اور بیروزگاری کے مسئلہ کو ہمت اور سیاسی شعور سے حل کرنے کی کوشش کرے تو تصادم کو ٹالا جاسکتا ہے ۔ اپوزیشن کی مخالفت کو ہر وقت ناگواری اور ناپسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہئے اور اپوزیشن کو کسی مسئلہ پر حکومت کی مخالفت برائے مخالفت نہیں کرنی چاہئے۔ پارلیمنٹ کا سیشن ابھی تو شروع ہوا ہے ۔ بجٹ سے پہلے منعقد کئے جانے والا یہ پہلا اجلاس ہمیشہ کی طرح تو تو ، میں میں پر ختم ہو تو یہ بات دونوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگی۔