حکومت ، عوام کو گمراہ کررہی ہے !

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر فینانس و داخلہ
سال 2008ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی مہم پر غیرمعمولی تبصرہ و تنقید کرتے ہوئے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار براک اوباما نے کہا تھا ’’آپ ایک خنزیر کے ہونٹوں پر لب اِسٹک لگا سکتے ہیں، لپ اِسٹک لگانے کے باوجود وہ ایک خنزیر ہی رہے گا‘‘۔ اوباما کا یہ تبصرہ اس وقت کافی مقبول ہوگیا۔ وکی پیڈیا کے مطابق یہ اصطلاح بیسویں صدی کے وسط سے استعمال میں ہے۔ اوباما نے دراصل ریپبلیکن کو اس اصطلاح کے ذریعہ یہ احساس دلانے کی کوشش کی تھی کہ آپ چاہیں لاکھ اعداد و شمار پیش کرلیں، حقیقت بدلنے والی نہیں ہے۔ مجھے یہ اصطلاح یا جملہ اس وقت یاد آیا جب میں نے ہندوستان کی قومی آمدنی سے متعلق قومی دفتر برائے اعداد و شمار کے عہدیداروں کی جانب سے جاری کردہ تخمینہ کو دیکھا اور اس کے بارے میں حکومت اور عہدیداروں کے دعوؤں کا مشاہدہ کیا۔ آپ کو بتادیں کہ مذکورہ تخمینہ 28 فروری 2023ء کو جاری کیا گیا ہے۔ اعداد و شمار جھوٹ نہیں بولتے بلکہ ان اعداد و شمار کی جو تشریح و توضیح کی جاتی ہے، وہ جھوٹ بولتی ہے، جیسا کہ ہم نے بجٹ برائے سال 2022-23ء پیش کئے جانے کے ہفتوں میں پایا ہے۔ اپنے بجٹ خطاب میں ہماری معزز وزیر فینانس نے بتایا کہ 2022-23ء میں قومی مجموعی پیداوار کا نمو 7% متعین کیا گیا تھا تب سے سرکاری عہدیدار بشمول چیف اکنامک اڈوائزر نے اس دعویٰ کو دہرایا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اسے درست کہا جاسکتا ہے، لیکن 7% نمو کے پیچھے جو حقیقت ہے وہ تلخ حقیقت ہے کیونکہ 2022-23ء کے متواتر سہ ماہیوں کے آؤٹ پٹ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ شرح نمو میں گراوٹ آئی ہے۔ این ایس او کے ایک تخمینہ کے مطابق پہلے تین سہ ماہی میں شرح نمو سال بہ سال 13.2%، 6.3% اور 4.4% رہی ۔ میرے خیال میں سال بہ سال شرح نمو کے سہ ماہی تخمینہ اور نہ ہی ترتیب وار سہ ماہی تخمینہ سے معیشت کی حقیقی حالت کا اظہار ہوتا ہے جبکہ NSO نے سہ ماہی آؤٹ پٹ کو خاص طور پر گراس والیو ایڈیڈ (GVA) اور جی ڈی پی کے معاملے میں قدر کو پرکھا ہے۔ مثال کے طور پر مالی سال 2022-23ء کے پہلے سہ ماہی دوسرے سہ ماہی اور تیسرے سہ ماہی میں ہم Gross Value Addition کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ پہلے سہ ماہی میں 35,03,189 کروڑ روپئے دوسرے سہ ماہی میں 35,66,493 اور تیسرے سہ ماہی 37,17,073 کروڑ روپئے رہا جس میں کانکنی اور کھدائی کے شعبہ میں (GVA) پہلے سہ ماہی میں 82,664 دوسرے سہ ماہی 65,594 کروڑ روپئے اور تیسرے سہ ماہی میں 78,732 کروڑ روپئے ظاہر کیا گیا۔ اسی طرح مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں جو اعداد و شمار دکھائے گئے ہیں، اس کے مطابق اس شعبہ میں پہلے سہ ماہی میں 6,39,243 کروڑ روپئے دوسرے سہ ماہی میں 6,29,758 کروڑ روپئے اور تیسرے سہ ماہی میں 6,14,982 کروڑ روپئے GVA ظاہر کی گئی ہے۔ اب آتے ہیں الیکٹریسٹی، گیاس، پانی، مالیاتی اور رئیل اسٹیٹ کے شعبہ کی جانب اس میں GVA پہلے سہ ماہی میں 90,134 کروڑ روپئے دوسرے سہ ماہی میں 87,489 کروڑ روپئے اور 81,537 کروڑ روپئے (تیسرے سہ ماہی) میں ظاہر کیا گیا، جہاں تک پیشہ ورانہ خدمات کا سوال پہلے سہ ماہی میں GVA ، 8,82,147 کروڑ روپئے دوسرے سہ ماہی میں 9,33,441 کروڑ روپئے اور تیسرے سہ ماہی میں 7,45,836 کروڑ روپئے دکھایا گیا۔ اب بات کرتے ہیں جی ڈی پی کی جملہ جی ڈی پی 37,47,908 (پہلے سہ ماہی میں) دوسرے سہ ماہی میں 38,80,988 کروڑ روپئے اور تیسرے سہ ماہی میں 40,18,584 کروڑ روپئے دکھائی گئی جن میں سے سرکاری مالیاتی مصارف پہلے سہ ماہی میں 4,11,243 کروڑ روپئے دوسرے سہ ماہی میں 3,32,450 کروڑ روپئے اور تیسرے سہ ماہی میں 3,47,661 کروڑ روپئے دکھایا گیا ہے۔ اسی طرح گراس فکسڈ کیپیٹل فارمیشن کے بارے میں اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے دکھایا گیا کہ یہ پہلے سہ ماہی میں 12,99,435 کروڑ روپئے دوسرے سہ ماہی میں 13,27,486 کروڑ روپئے تیسرے سہ ماہی میں 12,76,872 کروڑ روپئے برآمدات کے بارے میں بتایا گیا کہ اس کا جی ڈی پی پہلے سہ ماہی میں 9,15,472 کروڑ روپئے دوسرے سہ ماہی میں 9,28,593 کروڑ روپئے اور تیسرے سہ ماہی میں 9,19,661 روپئے دکھائے گئے ہیں۔ اس کے برعکس جی ڈی پی برائے سال 2022-23ء (درآمدات کے معاملے) میں پہلے سہ ماہی کے دوران 10,01,644 کروڑ روپئے، دوسرے سہ ماہی میں 10,99,168 کروڑ روپئے اور تیسرے سہ ماہی میں 10,17,152 کروڑ روپئے دکھایا گیا۔یاد رکھئے! یہ جو قدریں ہیں ، وہ حقیقی قدریں (Absolute Values) ہیں۔ سال بہ سال یا گزشتہ سہ ماہی کے لحاظ سے شرح نمو نہیں ہیں۔ اگر معیشت تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے تو پھر اس بات کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہئے کہ کیوں ایک سہ ماہی میں آؤٹ پٹ کی قدر گزشتہ سہ ماہی کے آؤٹ پٹ کی قدر سے کم ہونی چاہئے۔ مثال کے طور پر اگر مینوفیکچرنگ شعبہ اچھی حالت میں تھا، روزگار کے شعبہ کو اچھی طرح برقرار رکھا گیا اور طلب مضبوط و مستحکم ہو تو پھر مینوفیکچرنگ سیکٹر کے آؤٹ پٹ کی قدر جو پہلے سہ ماہی میں 6,39,243 کروڑ روپئے سے گر کر دوسرے سہ ماہی میں 6,29,798 کروڑ روپئے اور دوسرے سہ ماہی سے تیسرے سہ ماہی میں گراوٹ کا شکار ہوکر 6,14,982 کروڑ روپئے کیوں ہوگی۔ اس بات کو بھی نوٹ کریں کہ الیکٹریسٹی، گیاس اور پانی (یہ تمام مینوفیکچرنگ شعبہ سے قربت رکھتے ہیں) کی قدر سہ ماہیوں میں مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔
اعداد و شمار جھوٹ نہیں بولتے
اگر ہم معیشت کو گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ (بی ڈی پی) اور گورنمنٹ فائنل ایکسپینڈیچر (GFCE) کے لحاظ سے دیکھتے ہیں تو وہ اپنی رفتار یا پیشرفت برقرار نہیں رکھ سکے جبکہ تین سہ ماہیوں میں GFCF نشیب و فراز کا شکار رہے اور درآمدات و برآمدات جمود کا شکار ہوگئی اور اس طرح کا رجحان بمشکل مضبوط نمو کا اشارہ ہے۔ اگر دیکھا جائے تو فی الوقت ترقی یافتہ معیشتوں کو خطرناک بادِ مخالف معاشی انحطاط (معاشی سست روی) شدید مہنگائی، سخت ترین مالیاتی پالیسیوں، تحفظ پسندی اور فیول کی بے تحاشہ قیمتوں کا سامنا ہے۔ روس یوکرین جنگ، پابندیاں جنہوں نے Supply Chains میں خلل پیدا کی، گھریلو مہنگائی، بڑھتی شرح سود، ملازمتوں و روزگاری سے محرومی اور بیروزگاری کے ساتھ ساتھ سیاسی غیریقینی کا سامنا ہے ان حقیقتوں، باتوں، دعوؤں اور اعداد و شمار کے ذریعہ جھٹلایا نہیں جاسکتا چنانچہ سچائی یہ ہے کہ آؤٹ لک برائے سال 2023-24ء درخشاں نہیں ہے۔ اگرچہ اس طرح کے منفی حالات کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں یہ مایوسی کی بات ہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا تالیاں بجانے اور نعرے لگانے کی ترغیب دینے میں مصروف ہے۔ آر بی آئی کے فروری بلیٹن کے مطابق بجٹ برائے سال 2023-24 دراصل ہندوستان کے معاشی نمو کے امکانات میں اضافہ اور اس سے متعلق عمل کا آلہ ہے۔ اگر آپ نے 5، 12 اور 19 فروری کے میرے کالم پڑھیں ہوں گے تو آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اعداد و شمار پر لب اِسٹک لگاکر حکومت ، عوام کو گمراہ کررہی ہے۔