حکومت اور پولیس کا نظام ہوا بے نقاب

   

روش کمار
سارے ملک میں جہاں غداری اور بغاوت کے مقدمے چل رہے ہیں، اس پر سپریم کورٹ نے عبوری روک لگا دی ہے۔ اس فیصلے کو دو طرح سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک یہ کہ اس کے بعد بھی حکومت اور پولیس کے پاس کسی شہری کا گلا دَبانے کیلئے تمام دفعات موجود ہیں اور دوسرا کورٹ کی اس عبوری روک سے یہ ثابت بھی ہوجاتا ہے کہ حکومت اور پولیس، لوگوں کی آواز دبانے کیلئے اس طرح کے قانون کا استعمال کرتی ہے۔ ایک آزاد ملک میں شہری کے پاس اظہار خیال کی آزادی ہوا سے کسی طرح سے ڈرایا نہیں جائے۔ اس قانون کو پہلے جانا چاہئے یا منسوخ کردیا جانا چاہئے۔ یہ بڑی بات ہے کہ عدالت کے اس عبوری روک نے حکومتوں کے سیاہ کرتوتوں کو اجاگر کردیا ہے لیکن ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس سے حکومتوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، کبھی انگریزی حکومت نے بال گنگا دھر تلک اور گاندھی جی کے خلاف اس قانون کا استعمال کیاتھا۔ آج کے دور میں کئی صحافیوں، سماجی جہدکاروں کے خلاف اس کا استعمال ہورہا ہے۔ واضح رہے کہ ان کے خلاف اترپردیش، مدھیہ پردیش، ہریانہ، کرناٹک اور دہلی میں بغاوت اور غداری کے مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ اولذکر تین ریاستوں میں بی جے پی حکومتیں ہیں اور دہلی میں بھی بی جے پی قائدین کی شکایت پر اکثر غداری اور بغاوت کے مقدمات کا اندراج عمل میں آیا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مرکزی حکومت ، بغاوت کے قانون کے ساتھ بھی وہی کرے گی جو کانگریس کی زیرقیادت یو پی اے حکومت نے پوٹا جیسے قانون کے ساتھ کیا اور یو اے پی اے (UAPA) جیسے مزید سیاہ قوانین مدون کئے، اس نکتہ کو ذہن میں رکھنا ازحد ضروری ہے کہ غداری ؍ بغاوت کے قانون کو ہٹا دیا جائے گا یا اس سے کہیں زیادہ سخت قانون حکومت لائے گی جیسا کہ پوٹا ہٹانے کے بعد یو پی اے حکومت نے کہا تھا۔ ہاں! کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ اس کے بعد ’’پولیس گردی‘‘ ختم ہوجائے گی اور حکومتیں شہریوں کا گلا گھوٹنا آواز دبانا بند کردیں گی۔ آپ اور ہم سب جانتے ہیں کہ کس طرح لوگوں کو مختلف مقدمات میں پھنسایا گیا اور اجتناب یا جوابدہی کے بغیر کسی طبقہ کو استعمال کیا گیا بلکہ بحث یہ ہونی چاہئے کہ دفعہ عائد کرنے کے وقت موجود تمام پولیس عہدیداروں کا احتساب ایسی ہی دفعہ کے استعمال میں طئے ہو۔ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا سپریم کورٹ کے اس عبوری روک اور ہدایات کے بعد اس طرح کی بحث کے دروازے کُھلیں گے یا ہم اس موضوع پر بالکل ہی بات نہیں کریں گے بلکہ خاموشی اختیار کریں گے؟ جس طرح لوگوں کو مختلف مقدمات میں پھنسایا گیا، اس کی درجنوں مثالیں ہم آپ کے سامنے پیش کرسکتے ہیں کہ کس طرح بناء کسی تفتیش و تحقیق کے کسی کو پھنسانے اور ہراساں و پریشاں کرنے کیلئے گھر سے اٹھاکر جیل میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔ 17 ڈسمبر 2020ء کو سپریم کورٹ میں بھی یہ فیصلہ درست ثابت ہوا۔ اس کے باوجود کسی بھی عہدیدار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی، جس نے غیرقانونی طور پر کسی کے خلاف NSA لگایا؟ ’’انڈین ایکسپریس‘‘ نے تو اس ضمن میں سلسلہ وار لکھا تھا کہ 120 میں سے 94 مقدمات کو الہ آباد ہائیکورٹ نے خارج کردیا تھا۔ بہرحال تالیاں بجانے اور سرخی لگانے سے پہلے ان حقائق کو سامنے رکھیں اوور پوچھیں کے غداری کا قانون ہٹا دیا جائے تو بھی کہا کوئی تبدیلی آئے گی۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اہم ہے اور ممکن ہے کہ حکومت اس قانون کو بھی ختم کردے لیکن اس قانون اور دیگر قوانین کے غلط اور بیجا استعمال کی وجہ سے جو لوگ پھنس گئے۔ کیا کوئی حکومت اور پولیس عہدیدار اس کی ذمہ داری قبول کرے گا اور اس کی سزا قبول کرے گا؟ کیا کسی کو سزا ملے گی یا اس قانون کو ہٹانے میں ملک کو ان ہی لوگوں سے جمہوریت پر تقاریر سننے کو ملیں گی جو دوسرے طریقوں سے ان کا اور جمہوریت کا گلا گھوٹتے رہتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بغاوت کی دفعہ پر عبوری روک لگاکر حکومت اور پولیس کے نظام کو بے نقاب کردیا ہے۔ ایسا اس لئے بھی ہوا کیونکہ سپریم کورٹ نے اس قانون کے بارے میں اپنے فیصلے میں واضح کردیا تھا کہ اس کا استعمال گلا گھوٹنے کیلئے ہورہا ہے۔ کانگریس نے 2019ء کے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آتی ہے تو بغاوت کی اس دفعہ کو ختم کردے گی تب وزیراعظم نریندر مودی نے کانگریس کے وعدہ پر شدید تنقید کی تھی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ مرکزی حکومت نے بغاوت و غداری کی دفعہ کے خلاف دائر عرضیوں کی سپریم کورٹ میں مخالفت کی تھی لیکن اب مرکزی حکومت نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ وہ اس قانون پر نظرثانی کیلئے تیار رہے۔ یاد رکھئے! اس طرح کے قوانین لوگوں کی زندگیاں تباہ کردیتے ہیں اور ان عہدیداروں کے خلاف کچھ نہیں ہوتا، جو اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں، ہم آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتے ہیں، جو لوگوں کو پھنسانے کی بدترین مثال ہے۔ سورت کے ایک سیمینار میں شرکت کرنے والے 127 افراد کو SIMI کے کارکن قرار دے کر ان کے خلاف UAPA لگایا گیا۔ یہ لوگ کئی ماہ جیلوں میں بند رہے۔ 18 سال تک مقدمہ چلتا رہا اور اس دوران بہت سارے اس دنیا سے کوچ کرگئے لیکن جب ثبوت دینے کی بات آئی تب پولیس کے پاس کچھ خاص نہیں تھا، پھر عدالت نے سب کو رہا کردیا۔ بہرحال سیاہ قوانین کا بے بس لوگوں کو پھنسانے کیلئے استعمال ہوتا رہا ہے، اس بات کو عدالت عظمیٰ نے تسلیم کرکے ایک طرح سے حکومت کو خبردار کیا ہے لیکن کیا اس کا کوئی فائدہ ہوگا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔