حکومت بنانا آسان ہے چلانا مشکل

   

غضنفر علی خان
بی جے پی کی حالیہ انتخابات میں کامیابی پر اپوزیشن حواس باختہ ہے، بشمول کانگریس تمام سیاسی پارٹیاں جنہوں نے انتخابات میں حصہ لیا تھا نتائج کے بعد حیران و ششدر ہوگئی ہیں۔ صدر کانگریس راہول گاندھی کو اس قدر ریشہ خیال ہے کہ وہ پارٹی کی صدارت سے استعفیٰ دینا چاہتے ہیں۔ کانگریس پارٹی کی صدارت کیا کسی اور کو دی جاسکتی ہے یا ہمیں یہ کانگریس کا داخلی مسئلہ ہے لیکن نتائج نے بڑے بڑے سیاسی لیڈرس کے ہوش اڑا دیئے ہیں ۔ بی ے پی اور این ڈی اے کامیابی کا جشن منارہی ہے تو دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں رنج و غم میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ تاریخ کسی بھی کام کی تفصیل پیش کرتی ہے لیکن اس کے اسباب و علل تلاش کرنا بعد کے نسلوں کا کام ہوتا ہے۔ یہاں دو باتیں بے حد اہم ہیں کسی پارٹی کا اکثریت کی بنیاد پر حکومت بنانا ایک اور بات ہے لیکن اقتدار کا نشہ اپنے اوپر مسلط کرلینا ہمیشہ غلط حکمرانوں کے زوال کا سبب بن جاتا ہے ۔ بی جے پی کی کامیابی کی وجہ سے خود اس پارٹی کو اپنی حکومت بنانے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی ہے، اس صورتحال کی وجہ سے پارٹی کو اپنی فتح کا نشہ ہوگیا ہے ۔ اب حالت نشہ میں کوئی شخص صحیح فیصلے نہیں کرسکتا اور اپنی بات حکمراں پارٹی کے بارے میں کہی جاسکتی ہے ۔ اپنے پہلے اور حکومت میں بی جے پی نے اقتدار کے اس نشہ کا خوب مزہ لیا ۔ اقتدار دراصل ایک دو دھاری تلوار ہے۔ تلوار چلانے والے کو بھی وہ زخمی کردیتا ہے اور جس پر تلوار کا وار ہوتا ہے ، اس کی جان بھی جاسکتی ہے ۔ پہلے دورِ حکومت میں کوئی خاص کارنامہ اس پارٹی نے اپنی حکومت میں انجام نہیں دیا، زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ پارٹی اپنے ہندو ووٹ بینک کو مستحکم کرسکی لیکن ہندوستان بھر کے رائے دہندوں کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا جو زیادہ ووٹ حاصل کرنے سے بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوا ۔ اپنی دوسری کامیابی میں وزیراعظم مودی نے 57 وزراء کو کابینہ میں شامل کیا ہے ، اس میں کلیدی اہمیت کے حامل وزارت داخلہ بھی ہے جو صدر بی جے پی امیت شاہ کو دی گئی ہے ۔اب امیت شاہ کون ہے، اس بات کی نہ تو تفصیل کی ضرورت ہے اور نہ کسی قسم کی تشریح کی ضرورت باقی ہے ، ان کے کارنامے جو سب کے سب منفی اور دشمن رہے ہیں۔ ہندوستان کے ہر بچہ کو معلوم ہے یہ وہی امیت شاہ ہے جو 2001 ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات میں سب سے بڑا رول ادا کیا تھا ۔ گجرات کا فساد ان معنوں میں ہندوستان کی صحیح نبض ٹٹولتا ہے چونکہ یہ کوئی فرقہ وارانہ یا ہندو مسلم نوعیت کا فساد نہیں تھا۔ ان دوچار دنوں میں گجرات کی گلی کوچوں میں گجراتی مسلمانوں کی نعشیں خون میں لت پت ہر کسی نے دیکھی ہے ، یہ سب کچھ امیت شاہ کی سخت دلی اور مسلمانوں سے ان کی دشمنی کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔ کتنی بہنوں کو ان کے بھائیوں کے سامنے قتل کیا گیا اور سب سے بڑا دلخراش واقعہ یہ ہے کہ حاملہ مسلم خاتون کے پیٹ کو چیر کر بچہ کو باہر نکالا گیا اور پھر اس معصوم کو پٹک پٹک کر ماردیا گیا ۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوا تھا جبکہ گجرات میں بی جے پی حکومت تھی اور امیت شاہ وزیر داخلہ تھے ۔ ا یک رکن پارلیمان نے مجھ (احقر) کو بتایا کہ انہوں نے کئی بار وزیر داخلہ امیت شاہ کو فون کیا اور ہر وقت ان کا جواب یہی تھا کہ وہ گجرات کے مسلمانوں کو سبق سکھانا چاہتے ہیں اور کم و بیش یہی جو اب چیف منسٹر مودی کے دفتر سے مل رہا تھا کہ ان کی حکومت گجراتی مسلمانوں کو ایک ایسا سبق سکھانا چاہتی ہے ، جو یہ گجراتی مسلمان بلکہ ہندوستانی مسلمان کبھی بھول نہ سکیں گے ۔ اس شقاوت ، درندگی ، خونریزی ، مسلم کشی کے بعد اگر ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے وہی شخص (امیت شاہ) ملک کا وزیر داخلہ بنتا ہے تو ہندوستانی مسلمانوں کا دل دہل جاتا ہے ، یہی کچھ امیت شاہ کے وزیر داخلہ بننے کے بعد دیکھا جارہا ہے ۔ وہ خوف جو ان مسلم کش فسادات میں مسلمانوں نے دیکھا وہ ان کے دل و دماغ پر ایک ایسا نقش ہے جو صدیوں تک یاد رکھا جائے گا اور ان ہی معنوں میں یہ واقعات انمٹ نقوش ہیں ۔ کوئی غیرت مند قوم اس پر ہوئے اس ظلم کو نہیں بھول سکتی جیسے نادر شاہ کے حملہ کے وقت دہلی کے مسلمانوں پر ہوا تھا ۔ امیت شاہ اپنے دور کے بہت بڑے تاریخ شکن لیڈر بن گئے ہیں، اپنی نئی کابینہ میں اگر مودی سابقہ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کو اسی عہدہ پر برقرار رکھتے تو یہ بات اتنی ناگوار نہیں گزرتی ۔ وزیر اعظم مودی نے خدا جانے کس ذہن و فکر سے کام لیتے ہوئے امیت شاہ کے سر پر وزارت داخلہ کا تاج رکھا ہے جبکہ اس وزارت کے تحت ملک کی ساری داخلی صورتحال پر نظر رکھنے کی ذمہ داری آجاتی ہے ۔ پولیس ، لاء اینڈ آرڈر (مرکزی حکومت کا) وزارت داخلہ کے اختیار میں ہے ۔ آسام میں بیرونی افراد کی شہریت کا مسئلہ بے حد سنگین ہے ، اسی طرح میانمار کے مسلم پناہ گزینوں کا مسئلہ بھی پیچیدہ ہے ، اب ایسے میں امیت شاہ کا وزیر داخلہ بننا (کریلہ وہ بھی نیم چڑھا) کے مصداق امیت شاہ کو تو ہندوستان بھر میں اب یہ آزادی حاصل ہوگئی ہے کہ وہ بقول خود ان کے ان سب کو سبق سکھائیں گے ۔ مودی نے اپنی کابینہ میں وزارت خارجہ ایک آئی اے ایس آفیسر کے حوالے کی ہے ، یہ تقرر مودی کابینہ کی سب سے اچھی پیش قدمی ہے کیونکہ موجودہ وزیر خارجہ دراصل ایک بیورو کریٹ اور ایک سفارت کار رہے ہیں، ان کی دانشمندی اور دور اندیشی وزارت خارجہ کیلئے بے حد مفید ثابت ہوسکتی ہے ، اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت بنانا آسان کام ہے لیکن حکومت چلانا بے حد مشکل کام ہے ، اب یہی دیکھئے کہ مودی حکومت نے بغیر سوچے سمجھے نئی تعلیمی پالیسی کا خا کہ پیش کیا ۔ گرچہ کہ یہ کوئی قطعی ڈاکومنٹ نہیں ہے لیکن موجودہ حکومت کے وزراء اور خود وزیراعظم مودی نے اس بات کا کوئی اندازہ نہیں کیا کہ سہ لسانی فارمولہ کی ماضی قریب میں بھی سخت مخالفت کی گئی تھی ، خاص طور پر جنوبی ریاست ٹاملناڈو میں تو ہندی کو مسلط کرنے کی کوئی بھی کوشش ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی۔ سہ لسانی فارمولہ میں ہندی کو ہائی اسکول کی تعلیم تک لازمی طور پر پڑھانا و سکھانا مقصود رکھا گیا ہے ، اس کے علاوہ کیرالا اور کسی حد تک کرنا ٹک میں بھی اس سہ لسانی فارمولہ کے شدت سے مخالفت کی جارہی ہے ۔ اب اس سلسلہ میں ہوئے احتجاج کے بعد مرکزی حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ ہندی کو لازمی طور پر سکھانا و پڑھانا ضروری نہیں ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت مسائل کی ترجیحات نہیں سمجھتی ہے ، چنانچہ نئے وزیر قانون روی شنکر پرساد نے طلاق ثلاثہ کے مسودہ قانون کی پیشکشی پر بھی زور دیا ہے جبکہ ابتدائی مراحل پر ہی طلاق ثلاثہ سے متعلق نئے قانون کی مسلمانوں نے سخت مخالفت کی تھی۔ ہر وہ مسئلہ جس کی کوئی اقلیت مخالفت کرتی ہے اسی کو لاگو کرنے کی کوشش کا یہ سلسلہ اگر یوں ہی جاری رہا تو پھر اس حکومت کے لئے کام کرنا مشکل ہوجائے گا ۔