حکومت بنانے اور بگاڑنے میں انتخابی نعروں کا اہم کردار

   

پریاگ راج : دنیا کے سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان میں انتخاب کے دوران حساس’انتخابی نعروں‘ کی بدولت ووٹروں کو اپنا ہم نوا بنا کر ہاری بازی کو جیت میں اور جیتے ہوئے میدان کو ہار میں تبدیل ہوتے ہوئے حکومتوں کو بنتے اور بگڑتے دیکھا ہے ۔ ہندوستانی سیاست میں انتخابی نعروں کا اہم کردار رہا ہے ۔ نعرے ، رائے دہندگان کو اپنی جانب مائل کر اپنا ہم نوا بنا کر ووٹ کرنے کی حساس اپیل ہے ۔ جو لگاتار قائم ہے ۔نعرے ایک شخص یا نظام کے بارے میں کچھ بھی بتانے کی اہمیت رکھتے ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے سینئر لیڈر کے کے سریواستو نے کہا کہ کئی ایسے انتخابات ہوئے ہیں جو صرف نعروں پر مبنی تھے ۔ انتخابی نعرے اتنے موثر ہیں کہ ہوا کا رخ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ جب تک سورج اور چاند رہے گا، اندرا تیرا نام رہے گا،راجا نہیں فقیر ہے ، ملک کی تقدیر ہے ،نس بندی کی تین دلال، اندرا، سنجے بنسی لال، دوار کھڑی عورت چلائے ، میرا مرد گیا نسبندی میں، میرے انگنے میں تمہارا کیا کام ہے ،چھورا گنگا کنارے والا جیسے نعروں نے سورماؤں کو دھول چٹایا تو سر پر تاج بھی پہنایا۔ انہوں نے بتایا کہ سال 1952،1957اور1962 میں کانگریس کا ہی دبدبہ تھا۔
اس وقت تک جو بھی الیکشن ہوئے اس میں کانگریس کے پاس دو بیلوں کی جوڑی۔ جبکہ جن سنگھ کا الیکشن نشان دیپک اور پرجا سوشلسٹ پارٹی کا انتخابی نشان جھونپڑی تھا۔ اسی کو لے کر تمام نعرے بنے جو بہت کارگر نہیں تھے کیونکہ اس وقت پنڈٹ جواہر لال نہرو کا جادو قائم تھا۔