حکومت تلنگانہ کو اندرون پندرہ یوم مسلمانوں کے تئیں اقدامات کا مطالبہ

   

انتخابی وعدوں سے مکر جانے پر اظہار تشویش و برہمی ، کل ہند مسلم لیڈرس کانفرنس ، مختلف سیاسی پارٹیوں کے قائدین کی ناراضگی
حیدرآباد۔26جون(پریس نوٹ) ۔ کل ہند مسلم لیڈرس کانفرنس میں چار اہم قراردادیں پیش کی گئیں جس میںمرکزی اور ریاستی حکومتوں سے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو ختم کرنے اور مسلمانوں کوان کے جائز حقوق فراہم کرنے کے مطالبات پیش کئے گئے ۔میر عنایت علی باقری کی نگرانی اور مولانا حکیم سید شاہ خیر الدین صوفی کی صدرات میں منعقدہ کل ہند مسلم کانفرنس سے مختلف مکاتب فکر کے مشائخین ‘ علمائوں کے علاوہ سماجی جہدکاروں اور سیاسی قائدین نے خطاب کیا۔انتخابات سے قبل جو وعدے مسلمانو ں کے ساتھ کئے گئے ہیں ان پر عمل آوری ‘ مسلمانوں کو ووٹ بینک کی طرح استعمال کرنا اور چھوڑ دینے سے باز آجانے اور مسلمانوں کو آئینی حقوق فراہم کرنے کے علاوہ معاشی سطح پر آئینی حقوق کے ذریعہ مسلمانوں کو مضبوط کرنے کی حکومت تلنگانہ اور مرکزی حکومت سے مانگ کی گئی ۔ اس کے علاوہ مقررین نے کہاکہ فرقہ وارانہ تشدد کے نام پر مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایاجاتا ہے ۔ مسلمانوں کی جائیدادیں جلائی جاتی ہیں اورپھر مسلمانوں پر ہی مقدمات درج کرکے ان کے مکانات پر بلڈوزر چلائے جاتے ہیں۔ مرکزی اورریاستی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر ایک ایسا قانون بنائے جس سے مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جاسکے۔بجٹ کے متعلق مقررین نے کہاکہ بجٹ کی اجرائی تو عمل میںآتی ہے مگر مرکزی حکومت نے تو انتہا کردی اور اقلیتوں کے تمام جائز حقوق کو ختم کردیا جبکہ ریاستی حکومتوں بالخصوص ان ریاستوں میںجہاں پر بی جے پی اقتدار میں نہیں ہے ‘ اقلیتوں کے نام پر بجٹ کاتو اعلان کیاجاتا ہے مگر رقوم کی اجرائی عمل میں نہیں آتی ۔ اقلیتوں کے نام پر بجٹ کی شکل میں موجود رقومات حکومت واپس لے لیتی ہے۔ حکومتوں کو چاہئے کہ وہ گرین چینل کے ذریعہ اعلان کردہ بجٹ کی اجرائی عمل میںلائے اور تمام اقلیتوں کو بجٹ سے مستفید کرے ۔تلنگانہ میںمسلم ڈیکلریشن پر عمل آواری میں تاخیر پر شرکاء نے تشویش کا اظہار کیا۔ تلنگانہ کی ریاستی کابینہ میں مسلم وزیر کی عدم موجودگی کو ریاست تلنگانہ کے مسلمانوں کا عظیم نقصان قراردیتے ہوئے شرکاء نے کہاکہ اقتدار حاصل کرنے سے قبل خودچیف منسٹر اور کانگریس پارٹی نے ریاستی کابینہ میں دو مسلمانوں کو موقع فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا جس پر اٹھارہ مہینے گذر جانے کے باوجود عمل نہیں کیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے شرکاء نے یہ بھی مطالبہ کیاکہ مسلمانوں کو پارٹی سطح پر بھی برابر کے موقع ملنے چاہئے ۔ انہو ںنے کہاکہ کسی بھی سیاسی جماعت میں کسی بھی مسلمانوں کو نائب صدر یا پھر جنرل سکریٹری کا عہدہ نہیں دیاجارہا ہے ۔ انہو ںنے کہاکہ اگر سیاسی جماعتیں پارٹی سطح پر مسلمانوں کومواقع فراہم نہیں کریں گے تو ریاست تلنگانہ کے مسلمان حکومتی سطح پر مسلمانوں کے ساتھ انصاف کی کیسے امید کرسکتے ہیں۔حیات حسین حبیب نے صدر استقبالیہ کے فرائض انجام دئیے ۔ مولانا خیر الدین صوفی نے صدراتی خطاب میںحکومت تلنگانہ کو انتباہ دیاکہ اگر وہ اندرون 15یوم مسلم لیڈر س کانفرنس کے مطالبات پر عمل نہیں کرتی ہے تو پھر مسلم لیڈرس کانفرنس کے ذمہ داران سڑکوں پر اتر کر حکومت تلنگانہ کے خلاف احتجاج کریں گے ۔ میر عنایت علی باقری نے کہاکہ اگر پندرہ دنوں کے اندر مسلم لیڈرس کانفرنس کے مطالبات کو حکومت مان لیتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ہم دہلی میںکانگریس پارٹی کی اعلی قیادت سے ملاقات کریں گے ۔ صدر انتظامی کمیٹی رحیم اللہ خان نیازی نے حکومت تلنگانہ میں مسلم وزیرکی عدم موجودگی پرتشویش کا اظہار کیا۔ سکندر معشوقی ‘ پروفیسر انور خان‘ محمد عمراحمد شفیق ‘ صوفی سلطان شطاری ‘ وحید احمد ایڈوکیٹ ‘مصطفی محمود ‘ سکندر اللہ خان ‘ الیاس قریشی کے علاوہ دیگر مذہبی ‘ سماجی او ر سیاسی قائدین نے بھی مسلم لیڈرس کانفرنس سے خطاب کیا۔ایم اے ذیشان ‘ میر خرم علی ایڈوکیٹ اور دیگر نے کانفرنس کی ذمہ داریاں نبھائیں۔