حکومت کے لیے ہتک کا سبب ، عوام کو قانون ساز ادارہ ، عاملہ ، عدلیہ اور ذرائع ابلاغ کے زرین مواقع
حیدرآباد۔20اکٹوبر(سیاست نیوز) جمہویت کے 4ستونوں میں قانون ساز ادارہ ‘ عاملہ ‘ عدلیہ اور ذرائع ابلاغ کی اہمیت کو محسوس کرنے کا تلنگانہ عوام کو زرین موقع دستیاب ہوا ہے کیونکہ اب تک ان کی اہمیت کو عملی طور پر سمجھنے میں جو دشواریاں ہوا کرتی تھیں تلنگانہ میں اب وہ نہیں رہیں کیونکہ برسر اقتدار جماعت نے قانون ساز اداروں سے اپوزیشن کے خاتمہ کے ذریعہ جو من مانی کی کوشش کی اس میں عاملہ کی مجبوری یہ رہی کہ حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے اور حکومت نے اقتدار حاصل کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ اداروں کو خوفزدہ کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جس میں وہ کچھ حد تک کامیاب ہوئے لیکن ریاست تلنگانہ میں عوام کو عدلیہ سے حاصل ہونے والے انصاف کے سبب جمہوری اقدار برقرار ہیں۔حکومت تلنگانہ کو مختلف معاملات میں عدالت میں سبکی اٹھانی پڑرہی ہے اورحکومت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات پر عدالتی روک کے سبب جو حالات پیدا ہورہے ہیں حکومت ان سے باہرنہیں آپا رہی ہے۔ تلنگانہ ہائی کورٹ کی جانب سے حالیہ عرصہ میں حکومت تلنگانہ کے ایک سے زائد منصوبوں کو ناکام بنادیا گیا ہے جو کہ حکومت کے لئے ہتک کا سبب بنا ہوا ہے۔ حکومت تلنگانہ نے ریاست کی بلدیات میں جو انتخابات کروانے کا منصوبہ تیار کیا تھا اس معاملہ کو عدالت نے محفوظ نشستوں کی زمرہ بندی کے معاملہ میں ہونے والی دھاندلیوں کے سبب روک لگادی اور انتخابات کے انعقاد پر روک لگاتے ہوئے فہرست رائے دہندگان کی درستگی اور عوامی اعتراضات کو دور کرنے کی ہدایت دی ہے۔اسی طرح حکومت کی جانب سے کابینہ میں فیصلہ کرتے ہوئے موجودہ اسمبلی کو ارم منزل منتقل کرنے کے اقدامات کا فیصلہ کیا گیا تھا اور ارم منز ل کو منہدم کرتے ہوئے اس کی جگہ نئی اسمبلی کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا جسے عاملہ کی منظوری بھی حاصل ہوچکی تھی لیکن غیر سرکاری تنظیموں اور جہدکاروں کے علاوہ ذرائع ابلاغ میں حکومت کے اس فیصلہ کے خلاف مسلسل آواز اٹھانے کے علاوہ عدالت سے رجوع ہونے کے سبب حکومت کو اس اقدام سے باز رہنا پڑا ‘ تلنگانہ ہائی کورٹ نے حکومت کے اس فیصلہ کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے ارم منزل کے انہدام کی اجازت نہیں دی جس کے سبب شہر کی ایک تاریخی عمارت محفوظ رہی اور اسمبلی اپنی جگہ موجود رہے گی۔ حکومت نے پہلی معیاد کے دوران موجودہ سیکریٹریٹ کو سکندرآباد پریڈ گراؤنڈ پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن جمہوریت کے تیسرے ستون عدالت کے سبب ہی عوام کے جمہوری مطالبہ کو قبول کیا گیا اور عدالت نے حکومت کے اس فیصلہ کو بھی کالعدم قرار دیا تھا ۔ اسمبلی کی منتقلی کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے سیکریٹریٹ کی موجود ہ عمارت کے انہدام کے ذریعہ اس کی جگہ نئی عصری عمارت کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس مقدمہ کی سماعت بھی عدالت میں زیر دوراں ہے اور اب تک عدالت نے حکومت سے جو استفسار کئے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ قابل استعمال عمارتوں کے انہدام کی اجازت نہیںدی جائے گی ۔ اسی طرح اگر آر ٹی سی ہڑتال کے سلسلہ میں جاری مقدمہ کی سماعت کا جائزہ لیا جائے تو اس مقدمہ میں بھی عدالت نے حکومت کی ایک سے زائد مرتبہ سرزنش کرتے ہوئے آر ٹی سی ہڑتالی ملازمین کے جمہوری حقوق کا تحفظ کیا ہے ۔ حکومت تلنگانہ نے قانون ساز اداروں سے اپوزیشن کے خاتمہ کے ذریعہ ان پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور اس کنٹرول کے زیر اثر عاملہ بھی ہے لیکن عدالت اور میڈیا پر حکومت کنٹرول حاصل نہ کرپائی ہے اور نہ ہی ایسا کرسکتی ہے کیونکہ جمہوری حقوق کے تحفظ کیلئے ان اداروں کی آزادی ناگزیر ہے اس کا اندازہ اب تلنگانہ عوام کو عملی طور پر ہونے لگا ہے۔