حکومت کو ’’مہنگائی‘‘ نظر نہیں آتی

   

روش کمار
ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عام ہندوستانی مہنگائی کے بوجھ تلے دبا جارہا ہے لیکن حکمراں بی جے پی قائدین کو عام آدمی کی پریشانیوں کا کوئی احساس ہی نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ حکمراں جماعت کے قائدین یہ ماننے کیلئے ہرگز تیار نہیں کہ ملک میں مہنگائی پائی جاتی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں کہیں مہنگائی دکھائی ہی نہیں دیتی۔ اس طرح کے قائدین اور بھکتوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ملک میں مہنگائی کیوں نہیں ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مودی جی کی ریاست گجرات میں گربا مہنگا ہوگیا ہے۔ گربا میں لڑکے لڑکیوں کی کثیر تعداد حصہ لے کر محظوظ ہوتی ہے۔ اس مرتبہ گربا پاس پر جی ایس ٹی وصول کیا جارہا ہے۔ گربا کا اہتمام کرنے والے ایک آرگنائزر یا تنظیم نے بتایا کہ حکومت کی ہدایت پر عمل کرتے ہوے وہ اسی مرتبہ جی ایس ٹی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل ادائیگی کا طریقہ اپنائے ہوئے ہیں۔ گربا کے ایک اور آرگنائزر نے بتایا کہ 2019ء میں لڑکوں کا گربا پاس 3,500 اور لڑکیوں کا گربا پاس صرف 900 روپئے میں ہوا کرتا تھا، لیکن اب چونکہ ملک میں بی جے پی قائدین کو مہنگائی نظر نہیں آتی، اس لئے لڑکوں کا گربا پاس 3,500 کی بجائے جی ایس ٹی کے ساتھ 4,838 روپئے اور لڑکیوں کا گربا پاس جی ایس ٹی کے ساتھ 1,298 روپئے ہوجائے گا۔ کانگریس نے اس حوالے سے احتجاج شروع کردیا ہے۔ بہرحال یہ خبر ان لوگوں کیلئے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو یہ ماننے کیلئے ہرگز تیار نہیں کہ ہمارے ملک میں مہنگائی ہے حالانکہ دنیا بھر کے اخبارات مہنگائی سے متعلق خبروں سے بھرے پڑے ہیں۔ کسی ملک میں مہنگائی 10% ہے تو کہیں 40% مہنگائی پائی جاتی ہے جبکہ ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں حکومت پرزور انداز میں کہہ رہی ہے کہ یہاں مہنگائی نہیں ہے۔ کسی قسم کی کساد بازاری نہیں ہے اور ڈالر کے مقابلے روپیہ بھی کمزور نہیں ہوا ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور سابق مرکزی وزیر جینت سنہا کا جواب نہیں، وہ کوئی عام رکن پارلیمنٹ نہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ امریکہ کی ہاروڑ یونیورسٹی سے ایم بی اے اور دہلی آئی آئی ٹی سے انجینئرنگ کیا۔ ہاں جینت سنہا کے ذکر سے یہ بات یاد آئی کہ اکثر یہی کہا جاتا ہے کہ تعلیم یافتہ سمجھ دار لوگوں کو سیاسی میدان میں آنا چاہئے۔ شکر ہے کہ ہمارے ملک میں جینت سنہا جیسے پڑھے لکھے قابل ایم پی بھی ہیں۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے سب کی آنکھیں کھول دیں کہ ملک میں مہنگائی نہیں ورنہ ہم اور آپ اس وہم میں پڑے رہتے ہیں کہ ہندوستان میں مہنگائی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ اگر آپ کی رائے میں ہندوستان میں مہنگائی نہیں ہے تو اسے اچھی طرح سمجھ لیں جو منھیلا یونیورسٹی نے کیا ہے۔ اس یونیورسٹی کا قیام 1972ء میں عمل میں آیا۔ دلچسپی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ مذکورہ یونیورسٹی نے پولیٹیکل سائنس کے ایک طالب علم کو 100 میں سے 100 نہیں بلکہ 151 نمبرات دیئے ہیں لیکن 100 میں سے 151 نمبر دے کر بھی اسے جو فیل کرتا ہے، اس کا شمار عظیم شخصیتوں میں ہونا چاہئے۔ اسی یونیورسٹی کے ایک اور اسٹوڈنٹ نے اکاؤنٹنٹس اینڈ فینانس آنرز میں صفر نمبرات حاصل کئے لیکن اسے کامیاب کردیا گیا۔ تعلیم کو ختم کرنے ہم سب نے شب و روز جو محنت کی، اس کے ثمرات آنے لگے ہیں۔ اگر ملک کے تعلیمی شعبہ کا یہی حال رہا تو پھر تعلیم کو تلاش کرنا پڑے گا اور تعلیم بھی مہنگائی کی طرح نظر نہیں آئے گی۔ ہمیں نہیں معلوم کے ہاروڈ یونیورسٹی میں کاپی کی جانچ کو نا کرتا ہے، کیا ایسا نہیں کہ ہاروڈ یونیورسٹی نے کاپی چیک کرنے کا ٹھیکہ للت نارائن متھیلا یونیورسٹی کو دیا ہو۔ جینت سنہا کہتے ہیں کہ اپوزیشن کی زیراقتدار ریاستوں میں مہنگائی ہے، اس لئے اپوزیشن کو اپنی زیراقتدار ریاستوں میں تلاش تلاش کرنا چاہئے۔
مرکزی وزارت اعداد و شمار نے 25 جولائی کو اپنے جواب میں بتایا کہ کس ریاست میں مہنگائی کی شرح کیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ جس کی بھی حکومت ہو، مہنگائی کی شرح زیادہ ہے اور اس میں زیادہ فرق بھی نہیں ہے۔ بی جے پی کی زیراقتدار ریاستوں میں مہنگائی کی شرح کچھ اس طرح ہے۔ ہریانہ میں 8.08% ، مدھیہ پردیش میں 7.7%، گجرات میں 7.50%، آسام میں 7.54%، کرناٹک میں 6.20%، مہنگائی کی شرح پائی جاتی ہے جبکہ ملک کی سب سے بڑی ریاست یوپی میں مہنگائی کی شرح 6.85% اور اُتراکھنڈ میں 6.82% بتائی جاتی ہے۔ غیربی جے پی ریاستوں آندھرا پردیش، تلنگانہ، راجستھان، جھارکھنڈ میں افراط زر کی شرح بالترتیب 8.63%، 10.05%، 7.99% اور 6.86% پائی جاتی ہے۔ ٹاملناڈو جیسی اپوزیشن کے زیراقتدار ریاست میں مہنگائی کی شرح 5.8% اور دہلی میں 5.06% مہنگائی درج کی گئی۔ منی پور میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، مہنگائی کی شرح 0.60% بتائی گئی ہے۔ مہنگائی کا جہاں تک سوال ہے، گھروں میں ٹماٹر، پیاز اور آلو کی مثال دی جاتی تھی، کہا جاتا تھا کہ آج ان کی قیمتیں گرگئی ہیں۔ کچھ ترکاریوں کی قیمتیں کم ضرور ہوئی ہیں، لیکن کیا انہیں سستی کہا جائے گا؟ ایک طویل عرصہ سے قیمتیں آسمان کو چھوتی رہیں، کیا حکومت کا جواب ہے کہ جولائی میں مہنگائی تھی۔ اب قیمتیں کم ہوئی ہیں۔ کیا حکومت کہہ رہی ہے کہ جولائی میں اپوزیشن کا سوال ٹھیک تھا، اب نہیں ہے؟ ہم نے اُمورِ صارفین سے متعلق وزارت کی ویب سائٹ پر چیک کیا جہاں ہندوستان میں اشیاء کی اوسط قیمتیں دی گئی ہیں۔ ان قیمتوں کے مطابق صرف ایک سال میں آٹے کی قیمت میں 18% اضافہ ہوا ہے۔ گیہوں کی قیمت میں 21% اضافہ ہوا۔ کیا یہ اضافہ کم ہے؟ بلاشبہ کچھ سبزیوں کی قیمتیں گرگئی ہیں، لیکن اگر آپ ان تمام سبزیوں میں سے پیاز اُٹھاکر اعلان کریں گے کہ اس کی قیمت کم ہوگئی ہے تو اس کا کچھ فائدہ نہیں۔ آپ کسی غریب کی پلیٹ دیکھیں اور اس سے پوچھیں کہ اسے چاول کی قیمت کیا ادا کرنی پڑتی ہے۔ تب وہ آپ کو بتائے گا کہ چاول تو مفت مل رہا ہے۔ تیل مفت میں دستیاب ہے۔ آپ دیکھیں گے جو ترکاری 8 سال قبل دس پندرہ روپئے میں دستیاب تھی۔ آج آٹھ سال بعد بھی دس پندرہ روپئے میں مل رہی ہے، زیادہ سے زیادہ 15 تا 20 روپئے میں ملے گی۔ آپ بتائیں سبزیوں کی قیمتوں میں کہاں اضافہ ہوا۔ آپ انڈوں کی قیمت چیک کریں۔ دودھ کی قیمتیں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ہماری حکومت ہر شئے پر ناقابل یقین کنٹرول رکھی ہے اور اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کے وقت ایسا نہیں ہوسکتا تھا۔ آج غریب ہندوستانی کی پلیٹ اعداد و شمار سے نہیں بھری ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو آپ کو پسند نہیں آئی۔ آپ مہنگائی تلاش کررہے ہیں۔ آپ کو لاکھ تلاش کے باوجود مہنگائی نظر نہیں آرہی ہے کیونکہ مہنگائی نہیں ہے۔ جینت سنہا کہتے ہیں کہ آپ مہنگائی تلاش کررہے ہیں۔ آپ کو مہنگائی نہیں مل پا رہی ہے کیونکہ مہنگائی ہے ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے مہنگائی پر ناقابل تصور کنٹرول کیا ہے۔ جینت سنہا نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ انڈہ، دودھ اور آٹے کی قیمتیں دیکھیں۔ اگر دودھ کی قیمت میں ایک سال میں اضافہ نہیں ہوا تو آپ تمام کو جینت سنہا سے معذرت خواہی نہیں کرنی ہوگی۔ جینت سنہا نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ 8 برسوں سے کئی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا، اس کیلئے ہم نے 2016ء، 2017 اور 2018ء کے جوابات پر انحصار کیا ہے جو مودی حکومت نے لوک سبھا میں دیئے ہیں۔ اس جواب کے ساتھ ہم نے سال2016ء اور 2022ء کی قیمتوں کا موازنہ کیا ہے۔ 6 برسوں میں پیاز کی قیمت میں 51% اضافہ ہوا۔ اس طرح 6 برسوں میں ٹماٹر 30% آلو 40 فیصد اور پیاز 57% مہنگے ہوگئے۔مارچ 2019ء میں پیاز کی قیمت 15 روپئے فی کیلوگرام تھی، لیکن 3 ڈسمبر 2019ء کو وہ 81 روپئے فی کیلوگرام تک پہنچ گئی۔ ایک بات ضرور ہے کہ جب بھی مہنگائی کی بات ہوتی ہے یا پارلیمنٹ میں اس پر آواز اٹھائی جاتی ہے تو حکمراں جماعت کو یو پی اے دور کی مہنگائی یاد آنے لگتی ہے۔ پٹنہ کے اَنکت، روہت، پرنس اور پروین کا کہنا ہے کہ حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ مہنگائی نہیں ہے، ہمیں ایسا بالکل نہیں لگتا۔ ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ تیل، گیس، آٹا، چاول کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ تین سال کے دوران مہنگائی کی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ عام آدمی کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ ہر کوئی گالیاں دیتا ہے۔ لوگ مہنگائی کے باعث ایک بچہ کو بھی پڑھانے کے قابل نہیں۔ خانگی ملازمین کی حالت قابل رحم ہے۔ کمائی کم اور اخراجات زیادہ ہورہے ہیں۔ مودی جی نے اچھے دن کا وعدہ کیا تھا لیکن اب تک اچھے دن نہیں آئے۔ اچھے دن کی آس میں ہندوستانی نیچے جارہے ہیں۔ ایک بات سب کو تسلیم کرنی چاہئے کہ عوام چاہے کچھ بھی کرلیں، حکومت کو اس بات پر قائل نہیں کرواسکتے کہ ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ ثابت کردے گی کہ مہنگائی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ 2016ء سے اب تک خوردنی تیل کی قیمت میں 108% اضافہ ہوا ہے۔دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جینت سنہا کو مہنگائی دکھائی نہیں دیتی لیکن ان کے حلقہ ہزاری باغ کے عوام مہنگائی سے پریشان ہیں۔ وہ مہنگائی کو پھلتا پھولتا دیکھ کر مایوس ہورہے ہیں۔ ایک طرف حکومت مہنگائی سے انکار کرتی ہے تو دوسری طرف 8 جون کو آر بی آئی کے گورنر نے کہا تھا کہ مہنگائی برداشت سے باہر ہے۔ اگر مہنگائی نہیں بڑھ رہی ہے، روپئے کی قدر نہیں گھٹ رہی ہے تو آر بی آئی ڈالرس کیوں خرید رہی ہے۔ اب مہنگائی کی شرح 7.03% تک پہنچ گئی ہے۔ حکومت اسے تسلیم کرنے کی بجائے مہنگائی سے انکار کرتی ہے۔ اب حال یہ ہوگیا ہے کہ ہم ہندوستانیوں کو مہنگائی کی فکر کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ضروری ہوگیا ہے کہ ہمارے شہری حقوق کس حد تک محفوظ ہیں۔ عوام کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی سے اس کا بُرا حال ہے۔ اپوزیشن کے خیال میں مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے لیکن حکومت کہتی ہے کہ مہنگائی نہیں ہے، ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جھوٹ کون کہہ رہا ہے، جھوٹا کون ہے؟