سروے کمشنر کا عدم تقرر۔ وقف سروے کے آغاز سے بھی گریز ۔ عہدیداروں اور ملازمین کی ساز باز سے قیمتی املاک کے تحفظ میں مسلسل ناکامیاں
محمد مبشرالدین خرم
حیدرآباد۔15جولائی۔حکومت تلنگانہ کو وقف جائیدادوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ایسا نہیں ہے بلکہ حکومت کو وقف جائیدادوں کی تباہی میں دلچسپی ہے اسی لئے تشکیل تلنگانہ کے بعد سے اب تک وقف جائیدادوں کے سروے کیلئے سروے کمشنر کا تقرر عمل میں نہیں لایا گیا اور ہی وقف جائیدادوں کے سروے کو یقینی بنایا گیا ہے ۔ حکومت کی جانب سے سروے کمشنر کے عدم تقرر کے ذریعہ وقف ایکٹ کی صریح خلاف ورزی کی جا رہی ہے اور وقف بورڈ کی اس معاملہ میں خاموشی وقف ایکٹ پر عدم عمل آوری پر سرکاری سرپرستی کا ثبوت ہے۔ قیام تلنگانہ کے بعد حکومت سے وقف سروے کمشنر کے عدم تقرر و سروے کا آغاز کرنے میں کوتاہی دراصل قابضین کیلئے کھلی چھوٹ فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ وقف ایکٹ 1995 کے سیکشن 3 میں یہ بات صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر 10 سال میں ایک مرتبہ وقف سروے کو یقینی بناکر موقوفہ اراضیات کی صورتحال اور اس مدت کے دوران وقف کی جانے والی اراضیات کی تفصیلات کے اندراج کو یقینی بنائے اورجن جائیدادوں کا موقف تبدیل ہوا اس کے متعلق گزٹ میں اندراج کروایا جائے لیکن متحدہ آندھراپردیش میں کئے گئے دوسرے وقف سروے کو مکمل نہ کئے جانے سے یہ سروے بھی غیر اہم ہوچکا ہے کیونکہ اس سروے کی تکمیل کے بعد گزٹ کی اجرائی عمل میں نہیں لائی گئی اسی لئے دوسرے وقف سروے کو کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی ہے جبکہ دوسرے وقف سروے کے دوران آندھراپردیش میں ہزارو جائیدادوں کی نشاندہی کی گئی تھی لیکن ان کا سروے ریکارڈس کہاں ہے اس سے کوئی واقف نہیں ہے ۔ تشکیل تلنگانہ کے بعد سے ریاست میں وقف جائیدادوں کی ہئیت کی تبدیلی کے سروے کیلئے حکومت سے اقدامات نہ کئے جانے اور متعدد مقامات پر وقف جائیدادوں پر قبضہ و تعمیرات کی شکایات کی عدم یکسوئی کی بنیادی وجہ ان جائیدادوں سے متعلق گزٹ کی عدم موجودگی وقف بورڈ سے کاروائی میں رکاوٹ کا سبب بن رہی ہے۔ بتایاجاتا ہے کہ وقف بورڈ میں بعض عہدیداران بھی نہیں چاہتے کہ وقف سروے کا آغاز کیا جائے کیونکہ کئی برسوں سے ان عہدیداروں کی نگرانی میں اوقافی جائیداد کو تباہ کیا جاتا رہا ہے ۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران تلنگانہ میں سرکاری سرپرستی میں غیر قانونی اقدامات میں بھینسہ میں کروڑہا روپئے مالیاتی سینکڑوں ایکڑوقف اراضی کی تولیت کے متعلق رپورٹ زیر التواء ہے ‘ درگاہ حضرت جلال الدینؒ شاہ میر پیٹ کی جائیداد پر گزٹ کی اجرائی کے علاوہ کئی ایسے امور ہیں جن کو فوری حل کرنے کے ساتھ ان کے گزٹ جاری کروائے جانا ضروری ہے۔ وقف بورڈ کو عدالتوں میں ناکامی کا اگر جائزہ لیا جائے تو عدالتوں نے پہلے وقف سروے کمشنر کے سروے کی بنیاد پر جو گزٹ جاری کئے گئے تھے ان کو کالعدم قرار دینے احکام جاری کرکے وقف بورڈ کوکروڑہا روپئے کی جائیدادوں پر ادعا سے محروم کیا ہے اور بیشتر مقدمات میں حکومت سے ہی بورڈ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جو کہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ حکومت خود وقف بورڈ کے مقابلہ میں مضبوط موقف کے حامل وکلاء کی خدمات حاصل کرکے اپنے ہی گزٹ کو کالعدم قرار دینے کی راہ ہموار کر رہی ہے اور اب تو وقف جائیدادوں کے اندراج کیلئے گزٹ کی اجرائی تک نہیں کی جا رہی ہے ۔ تلنگانہ وقف بورڈ میں برسر خدمت بعض ملازمین جو کہ وقف سروے میں کام کے دوران جائیدادوں کی مکمل تفصیلات سے واقفیت حاصل کرچکے تھے وہ اب ان جائیدادوں کو اعلیٰ عہدیداروں سے ساز باز کرکے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ وقف سروے اور سروے کمشنر کے عدم تقرر سے حکومت کی نیت واضح ہورہی ہے کہ حکومت خود نہیں چاہتی کہ اوقافی جائیدادوں کا تحفظ کیا جائے ۔ چیف منسٹر کے زبانی احکام پر مہربند وقف بورڈ کے ریکارڈ سیکشن کی کشادگی نہ کئے جانے سے آر ٹی آئی درخواستوں کی تفصیلات جاری کرنے میں دشواریاں موقوفہ جائیدادوں کی تباہی کا سبب بن رہی ہیں۔وقف بورڈ سے اس وقت سی سی ایل اے کو منتقل ریکارڈس کی واپسی یا ان کے حشر سے اب تک کوئی واقف نہیں ہے کیونکہ ریکارڈ سیکشن کو مہربند کرتے وقت بڑی تعداد میں فائیلس اور ریکارڈس حج ہاؤز سے منتقل کئے گئے تھے ۔ اسمبلی اجلاسوں کے علاوہ مسلم قائدین کی ملاقاتوں کے دوران چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کو وقف بورڈ ریکارڈ سیکشن کی کشادگی کیلئے متوجہ کروایا جاچکا ہے اور ہر مرتبہ حکومت سے کا تیقن دیا گیا کہ حکومت جلد ا س سلسلہ میں احکام جاری کرے گی لیکن اب تک ایسا نہیں کیا گیا ۔