حکومت کو ویکسین پالیسی کی ناکامی تسلیم کرنے میں عار کیوں ؟

,

   

غلطی کو تسلیم کرلینا کمزوری نہیں بلکہ حوصلے کی علامت ۔ ویکسین کی خریداری اور تقسیم پر بھی سپریم کورٹ کا سوال

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے آج ریمارک کیا کہ خرابی کو تسلیم ضرور کرنا چاہئے ۔ عدالت نے کورونا وائرس ویکسین پالیسی کے معاملے میں مرکز کی سرزنش کرتے ہوئے زور دیا کہ مہلک وائرس سے لڑنے کی پالیسی کو ملک میں حقیقی صورتحال سے غیرمربوط نہیں کرنا چاہئے ۔ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ ، جسٹس ایل ناگیشور راؤ اور جسٹس ایس رویندر بھٹ نے مرکز کے نمائندہ سالیسیٹر جنرل تشار مہتا سے کہاکہ آپ کو خامیوں کو تسلیم کرنے میں پس و پیش نہیں کرنا چاہئے اور دیکھنا ہوگا کہ ملک بھر میں کیا کچھ پیش آرہا ہے ۔ عدالت نے زور دیا کہ مرکز کی ویکسنیشن پالیسی کو بنیادی حقائق کے اعتبار سے وضع کرنا چاہئے ۔ عدالت نے سالیسیٹر جنرل سے دریافت کیا کہ متعدد ریاستیں کووڈ۔19 کی غیر ملکی ویکسین کے حصول کے لئے عالمی سطح پر ٹینڈر جاری کررہی ہیں اور کیا یہ مرکزی حکومت کی پالیسی ہے؟۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ آج تک مرکز کووڈ۔19 ویکسین سے متعلق قومی پالیسی دستاویز پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔سپریم کورٹ نے ویکسین کی خریداری اور تقسیم کرنے کی لاجسٹکس پر بھی سوال اُٹھایا اور کہا کہ حکومت 18 سال سے زائد عمر کے افراد کو بھی ویکسین کیوں فراہم نہیں کررہی ہے؟ عدالت نے کورونا وائرس مریضوں کو ضروری ادویات، ویکسین اور میڈیکل آکسیجن کی فراہمی سے متعلق معاملے کا ازخود نوٹ لیا اور اس کی سماعت کی ۔ اس معاملے کی مزید سماعت ملتوی کردی گئی کیونکہ عدالت نے مرکز کو ملک کی ویکسین پالیسی سے متعلق سماعت میں اُٹھائے گئے سوالات کے جواب کے ساتھ حلف نامہ داخل کرنے کیلئے 2 ہفتوں کا وقت دیا ہے۔ سالیسٹر جنرل نے کہا کہ آکسیجن ٹاسک فورس نے مسودہ رپورٹ تیارکرلی ہے، لیکن اسے ابھی حتمی شکل دیا جانا باقی ہے۔مہتا نے کہا کہ اہل آبادی کورواں سال کے آخر تک ٹیکہ لگادیا جائے گا۔مرکزی حکومت دیگر ویکسین مینوفیکچررز جیسے ’فائزر‘ کے ساتھ بات چیت کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ کئی ریاستوں نے ٹیکے کے لئے گلوبل ٹینڈرجاری کئے ہیں، لیکن ویکسین بنانے والی کمپنیاں جیسے فائزر یادیگر کی اپنی پالیسی ہے کہ وہ براہ راست ملک سے بات کرتی ہیں، ریاست سے معاملت نہیں کرتی۔ صورتحال ایسی نہیں ہے کہ کچھ ریاستیں زیادہ قیمت دیتی ہیں اور زیادہ ویکسین کی خریداری کرتی ہیں۔ تاہم سپریم کورٹ نے مہاراشٹر کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم اب ایک تماشا دیکھ رہے ہیں جہاں میونسپل کارپوریشنز اور ریاستیں عالمی ٹینڈرز جاری کر رہی ہیں۔ اس معاملے میں سینئر ایڈوکیٹ جئے دیپ گپتا اور میناکشی اروڑا نے بھی اپناموقف رکھا۔