پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
یہ کیلینڈر 2024 ء میں میرا پہلا کالم ہے اور میں پھر سے قارئین کی خدمت میں سال نو کی مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ کئی حصوں میں خوشی و مسرت کا انداز بھی الگ الگ ہوتا ہے اس کے علاوہ کسی حصہ میں خوشی بہت زیادہ ہوتی ہے تو ملک کے کسی حصہ میں خوشی کم ہوتی ہے ۔ بہرحال ہندوستان کی 142 کروڑ آبادی مختلف طبقات پر مشتمل ہے اور مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ کون خوش ہے اور کون خوش نہیں ۔ حالیہ دنوں میں راقم الحروف کو بے شمار مضامین کے مطالعہ کا موقع ملا جن میں پرزور انداز میں حکومت کے اس دعوے کی تصدیق کی گئی تھی کہ ملک میں ہر کوئی خوش ہے ۔ آخر ملک میں سب خوش کیوں ہیں اس تعلق سے مصنفین کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان نے حالیہ برسوں میں اس قدر زیادہ معاشی نمو کا مشاہدہ کیا جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی اور جہاں تک اس اقتصادی ترقی اور معاشی نمو کے فروغ سے ہونے والے فوائد اور اس کے ثمرات کا سوال ہے ان سے سماج کے ہر طبقہ نے فائدہ اُٹھایا اور ثمرات حاصل کئے ۔ میں اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ ملک کی معاشی حالت میں بہتری آئی ہے لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اس کی ماضی میں کوئی نظیر یا مثال نہ ملنے کے جو دعوئے کئے جارہے ہیں وہ بالکل غلط ہیں ۔ اس سلسلہ میں حکومت کی شان میں ، اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے والوں اور حکومت کی تائید و حمایت کرنے والے مضمون نگاروں ( مصنفین ) کو یہ ضرور بتانا چاہوں گا کہ معاشی نمو کا سنہرا دور یو پی اے کے تین سال یعنی 2005 ء اور 2008 ء کے درمیان رہا جبکہ ملک کی قومی مجموعی پیداوار یا جی ڈی پی سالانہ 9.5 فیصد ، 9.6 فیصد اور 9.3 فیصد کے حساب سے نمو پاتی رہی ۔ اس کے برعکس وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت میں ہمارے ملک کی معیشت گزشتہ 9 برسوں میں 5.7 فیصد کی اوسط شرح سے نمو پائی ہے جبکہ مودی حکومت نے معاشی سال 2023-24 میں معاشی شرح نمو کا تخمینہ 6.5 فیصد رکھا تھا اس کے باوجود اوسط شرح نمو ہنوز 5.8 فیصد ہے ۔ ایسے میں ہم بلاجھجھک یہ کہہ سکتے ہیں کہ مودی حکومت میں جو معاشی نمو پایا جاتا ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ اس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی یا وہ بہت شاندار ہے ۔ ہاں ! ہم اسے اطمینان بخش نمو کہہ سکتے ہیں لیکن اب بھی ناکافی ہے ۔
خوش لوگ : اگر ہم حکومت کی اقتصادی پالیسی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان پالیسیوں کا کم تر راست محاصل کی سمت جھکاؤ زیادہ دکھائی دیتا ہے اس کے علاوہ اکثر زیادہ جابرانہ بالراست محاصل کے ساتھ ساتھ زبردستی کے اقدامات اور کیاپٹل انوسٹمنٹ بھی اس حکومت کی معاشی پالیسی کا حصہ رہے ۔ مثال کے طورپر بڑے اور اوسط صنعتی گھرانے اور صنعتیں، بہت زیادہ آمدنی یا دولت کے مالک شخصیتیں ، بینکرس، اسٹاک مارکٹ میںسرمایہ مشغول کرنے والے تاجرین اور دلال ( بروکرس) ، سافٹ ویر پیشہ ورانہ ماہرین ، بڑے بڑے تاجرین ، ججس ، چارٹرڈ اکاؤنٹس ، ڈاکٹرس اور وکلاء ، یونیورسٹی و کالجس کے اساتذہ ، سرکاری ملازمین ، دولتمند زرعی ماہرین اور منی لانڈر بہت خوش ہیں کیونکہ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں سے ان کا فائدہ ہوا ہے جبکہ متوسط اور غریب طبقہ پریشانی کا شکار بنا ہوا ہے ۔
تاریک رُخ : اس تصویر کا تاریک رُخ یہ ہے کہ عوام کے کئی طبقات یا حلقۂ ترقی اور حکومت کے معاشی نمو کے ثمرات ، اس کے فوائد سے محروم ہیں اور اس معاملہ میں ایسے لوگ بھی ہیں جو کافی پیچھے ہیں اور ہمارے ملک میں اسی قسم کے لوگوں کی اکثریت ہے ۔ اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے آپ کو بتادوں کہ ایسے لوگوں کا جو پہلا طبقہ ہے وہ دراصل 82 کروڑ ہندوستانیوں پر مشتمل ہے جنھیں حکومت ماہانہ فی کس 5 کلوگرام مفت راشن دیتی ہے ۔ ایسے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مفت راشن کی اسکیم معاشی ترقی یا خوشحالی کو ثابت کرنے کا اعزاز یا تمغہ نہیں ہے بلکہ مفت راشن حقیقت میں بڑے پیمانے پر پائی جانے ولی ناقص غذاء کے سنگین رجحان کی علامت ہے ۔ ملک میں کئی ایسے مقامات ہیں جہاں بھوک نے اپنا ڈیرا ڈال رکھا ہے ، ویسے بھی حکومت کے دعوؤں کے درمیان یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں آدھے سے زیادہ خاندان چاول اور گیہوں جیسے اناج کی خریدی کے متحمل نہیں ہیں ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ ہمارے ملک میں کم آمدنی کی حامل آبادی ؍ یا بیروزگاروں کی تعداد زیادہ ہے ۔ حکومت کے پاس ان دو سلگتے مسائل کے حل کیلئے کوئی پالیسی نہیں ہے ۔ جہاں تک MGNREGS کا سوال ہے اس کا مقصد کم آمدنی کے حامل خاندانوں کو درپیش مسائل حل کرنا اور اُنھیں روزگار فراہم کرنا تھا لیکن روزِ اول سے ہی اس اسکیم کے تئیں حکومت کی عداوت ثابت ہوچکی تھی چنانچہ MGNREGS اسکیم کے تحت جن کروڑہا ورکروں نے اپنے ناموں کا اندراج کروایا تھا اپریل 2022 ء سے حکومت نے اس فہرست سے 7.6 کروڑ ورکروں کے نام حذف کردیئے اور موجودہ فہرست میں ایک تہائی سے زائد رجسٹرڈ ورکروں (8.9 کروڑ ) اور 1/8 سرگرم ورکروں (1.8 کروڑ ) کام کے لئے اہل ہیں اور وہ کام کیلئے اس لئے اہل ہیں کیونکہ حکومت نے آدھار پر مبنی نظام ادائیگی ( اُجرت کی ادائیگی سے متعلق سسٹم ) متعارف کروایا ہے ۔ اگر حکومت MGNREGS کی تائید و حمایت نہیں کرے گی تو پھر غریب افراد اور ان کے خاندان اپنی زندگیاں کیسے گذاریں گے ؟ اس معاملہ میں حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث ان غریب افراد اور خاندانوں کی زندگییاں بہت مشکل ہوگئی ہیں اور یقینا وہ خوش نہیں ہیں ۔
کام سے محروم اور آسماں کو چھوتی مہنگائی : اگر ہم حکومت کی اقتصادی پالیسیوں سے ناخوش لوگوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس معاملہ میں وہ لوگ بہت زیادہ ناخوش ہیں جن کے پاس کوئی روزگار ، کوئی کام نہیں ہے ، جن کی کوئی کمائی اور کوئی آمدنی نہیں ہے اور آمدنی ہے بھی تو بہت کم ہے ۔ حکومت اب روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے بارے میں کوئی بات بھی نہیں کررہی ہے۔ آپ کو بتادوں کہ ہمارے ملک میں نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 10.0فیصد پائی جاتی ہے اور 25 سال سے کم عمر کے گریجویٹس میں بیروزگاری کی یہ شرح 42 فیصد ہے ۔ ایسے میں یقینا یہ نوجوان ناخوش ہیں ، ناخوش لوگوں کا ایک اور طبقہ ایسا ہے جو ملک میں بڑھتی مہنگائی سے شدید متاثر ہے اس طبقہ میں سب شامل ہیں سوائے ان سرفہرست 10 فیصد ( ٹاپ 10 ) لوگوں کے جن کے قبضے میں ملک کی 60 فیصد دولت ہے اور جو قومی آمدنی کا 57 فیصد حصہ کی کمائی کرتے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 2022 ء میں اوسط مہنگائی 6.7 فیصد تھی ۔ سال 2023 ء کے 12 ماہ کے چار مہینوں میں افراط زر کی شرح 2.6 فیصد کی بالائی حصہ پار کرگئی جبکہ نومبر 2023 ء میں مہنگائی کی شرح 5.55 فیصد ہوگئی ۔ غدائی افراط فی الوقت 7.7 فیصد ہے ۔ آر بی آئی کے ماہانہ بلیٹن ( ڈسمبر 2023 ء ) کے مطابق جاریہ سال بھی مہنگائی بڑھنے کے پورے پورے امکانات پائے جاتے ہیں ۔ اب مہنگائی کا یہ حال ہوگیا ہے کہ لوگوں میں قوت خرید باقی نہیں رہی ۔ وہ قرضوں کے دلدل میں پھنس گئے ہیں ۔ مہنگائی پر قابو پانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن حکومت نے یہ ذمہ داری ریزرو بینک آف انڈیا پر ڈال دی ہے لیکن مجھے شبہ ہے کہ آر بی آئی اس معاملہ میں بڑھتی قیمتوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام کو کچھ راحت فراہم کرے گی جبکہ مالی خطرہ پر قابو پانے کا جو ہدف ہے اس ہدف کو بھی آر بی آئی پورا کرسکتی ہے یا نہیں اس پر بھی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں ۔ ایک بات ضرور ہے کہ یہ حکومت دولتمندوں کی ہے ۔ دولتمند اسے چلارہے ہیں اور اس سے صرف اور صرف دولتمندوں کا فائدہ ہورہا ہے ۔