قائد مقننہ کی متعدد نمائندگیاں بھی بے فیض ، جامع مسجد افضل گنج کی چھت کو خطرہ
حیدرآباد۔29۔مارچ(سیاست نیوز) حکومت کی توجہ منادر پر ہیں اور مساجد کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہونے لگی ہیں اور ان کی مرمت و آہک پاشی کے معاملات کو پوری طرح سے نظرانداز کیا جانے لگا ہے۔ قائد ایوان مقننہ مجلس پارٹی جناب اکبر الدین اویسی نے لال دروازہ میں مہانکالی مندر کی توسیع و آہک پاشی کے علاوہ تعمیر کیلئے خصوصی بجٹ کی اجرائی کی نمائندگی کے ساتھ جامع مسجد افضل گنج کی مرمت و آہک پاشی کے علاوہ تزئین نو کے اقدامات کیلئے نمائندگی کی تھی لیکن ریاستی حکومت کی جانب سے مہانکالی مندر لال دروازہ کے سلسلہ میں منصوبہ کا اعلان اور تعمیری کاموں کے آغاز کیلئے حصول اراضیات کے اقدامات شروع کئے جاچکے ہیں جبکہ جامع مسجد افضل گنج کے اندرونی حصہ میں وضو خانہ کی چھت کا پلاسٹر گذشتہ شب اچانک گرپڑا تو جناب اکبر الدین اویسی ‘ مسجد کمیٹی کے علاوہ مختلف گوشوں سے شہر حیدرآباد کی تاریخی مساجد میں شامل اس جامع مسجد افضل گنج کی تزئین نو و آہک پاشی کے سلسلہ میں مسلسل توجہ دہانی کروائی جاتی رہی ہے ۔ مسجد کے اندرونی حصہ میں موجود چھت کی پلاسٹر جھڑنے کے بعد بھی اگر اس تاریخی مسجد کے مرمتی کاموں کا فوری آغاز نہیں کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں جاریہ ماہ کے اواخر میں مصلیان مسجد کو مشکل حالات کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ انہیں اس سلسلہ میں ریاستی حکومت کی جانب سے کوئی واضح ہدایات موصول نہیں ہوئی ہیں جس کی بنیاد پر اس تاریخی مسجد کی آہک پاشی کے کاموں کا آغاز کیا جائے۔ ریاستی حکومت کے محکمہ جات کی جانب سے اقلیتوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی کے سلسلہ میں موصول ہونے والی شکایات کے دوران جامع مسجد افضل گنج کے وضو خانہ کی چھت کے پلاسٹر جھڑنے کے بعد کہا جا رہاہے کہ فوری طور پر ماہرین آثار قدیمہ سے مشاور ت کے ساتھ اس مسجد کے مرمتی کاموں کا آغاز کیا جانا چاہئے ۔ قائد مجلس نے لال دروازہ میں مندر کی تعمیر و توسیع کیلئے جو نمائندگی کی تھی اس پر مختلف وزراء بشمول ریاستی وزیر انڈومنٹ کے علاوہ ریاستی وزیر افزائش مویشیان نے ایک سے زائد اجلاس منعقد کرتے ہوئے مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآبا دکے عہدیداروں کو ہدایات جاری کی جس پر عہدیداروں نے عملی اقدامات کا آغاز کردیا ہے لیکن جامع مسجد افضل گنج کے متعلق اختیار کردہ بے اعتنائی والے رویہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاستی حکومت کے محکمہ جات اور عہدیداروں کو مساجد کے امور سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔م