حکومت کی مالی امداد کی ایک اور اسکیم سے تلنگانہ کے مسلمان محروم

,

   

بی سی پسماندہ طبقات کیلئے اسکیم کا جی او جاری ۔ بی سی ( ای ) زمرہ کی شمولیت سے گریز ۔ عیسائی طبہ کو بھی امداد نہیں ملے گی

محمد مبشر الدین خرم
حیدرآباد 16 جون :تلنگانہ میں مسلمانوں سے ناانصافی اور سرکاری اسکیمات سے محروم کرنے کی منظم سازش ہے یا پھرریاستی حکومت بھی بی جے پی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مسلمانوں کو سماجی دھارے سے خارج کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے! ریاست میں دلتوں کیلئے 10لاکھ کی مالی امداد کی اسکیم ’دلت بندھو ‘کے بعد حکومت نے6جون کو جی او ایم ایس نمبر 5 جاری کرکے (بی سی ) پسماندہ طبقات کیلئے ایک لاکھ روپئے مالی امداد کی اسکیم کا اعلان کیا اور اس اسکیم سے بھی مسلمانو ںکو محروم رکھنے بی ۔سی (ای) طبقہ کو اس میں شامل نہیں کیاگیا ۔ 27مئی کو کابینہ اجلاس میں کابینی ذیلی کمیٹی نے بی سی طبقہ کے پیشہ ور افراد اور کاریگروں کیلئے کاروبار کو بہتر بنانے ایک لاکھ روپئے مالیت کی امداد جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اسے منظوری دے کر درخواستوں کی وصولی شروع کی گئی ۔ 20جون کو درخواستوں کی وصولی کی آخری تاریخ ہے ۔ حکومت کی لاکھ روپئے امداد کی اسکیم میں بی سی(ای) کو شامل نہیں کیا گیا جبکہ سرکاری احکام میں ایسی صراحت نہیں ہے بلکہ یہ کہا گیا کہ وہ تمام طبقات جو بی سی زمرہ میں شامل ہیں ان میں کاریگر ‘ پیشہ ور طبقہ کو اس اسکیم سے استفادہ کا موقع رہے گالیکن سرکاری احکام کے برعکس ویب سائٹ پر محض بی سی ۔اے‘ بی سی ۔ بی اور بی سی ۔ڈی سے ہی درخواستیں وصول کی جار ہی ہیں جبکہ بی ۔سی(ای) میں مسلم طبقات شامل ہیں جن میں کئی طبقات پیشہ کے اعتبار سے بی سی زمرہ میں شامل ہیں۔ حکومت کی پالیسی سے واضح ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ترقی کوئی موقع فراہم کرنے تیار نہیں ہے کیونکہ دلتوں کیلئے ’دلت بندھو‘ اسکیم کے بعد اعلان کیا گیا تھا کہ ’مسلم بندھو‘ اسکیم شروع کی جائے گی لیکن اس میں کوئی پیشرفت تو نہیں کی گئی لیکن بی سی طبقات کیلئے نئی اسکیم سے بھی مسلمانوں کو محروم کردیا گیا جس سے بی سی زمرہ میں شامل ہوکر بھی مسلمان حکومت کی ایک لاکھ روپئے مالیتی امداد کی اسکیم کا حصہ نہیں بن سکتے۔ حکومت نے جن پیشہ ور اور کاریگر مسلم طبقات کو بی سی (ای) زمرہ میں شامل کیا ہے ان میں قریش برادری ‘ مسلم عطر فروش‘ مسلم حجام‘ مسلم سپیرے ‘ تاجرین چرم‘ مسلم دھوبی کے علاوہ فقیر ‘ درویش شامل ہیں جنہیں ان کے پیشہ اور کاریگری کے پیش نظر بی سی زمرہ میں شامل کیا گیا ۔ بی سی (ای) زمرہ میں مسلم طبقات کو شامل کرنے کے باوجود جی او ایم ایس 5کے ذریعہ جس اسکیم کا اعلان کیا گیا اس میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت عمدا اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو اسکیمات سے محروم رکھنے کوشش کر رہی ہے۔ اسکیم سے استفادہ کیلئے جن گروپس کو محروم کیا گیا ان میں بی سی (سی) اور بی سی (ای) شامل ہیں ۔ بی سی (سی) میں عیسائی برادری والے بی سی طبقات ہیں جبکہ بی سی (ای) میں مسلم طبقہ کے بی سی طبقات موجود ہیں اس طرح دونوں کو اس اسکیم سے محروم رکھا گیا ہے ۔ مسلم طبقہ کی بعض تنظیموں سے حکومت کے ذمہ داروں کو اس سے واقف کر نے و نمائندگی کے باوجود یہ جواب دیا جا رہاہے کہ یہ حکومت کا پالیسی فیصلہ ہے اس سلسلہ میں وہ کچھ کرنے سے قاصر ہیں ۔ حکومت میں مسلم وزیر داخلہ ‘ اقلیتی امور مشیر حکومت پرنسپل سیکریٹری اقلیتی بہبود و ڈائرکٹر اقلیتی بہبود کے علاوہ کئی قائدین بی آر ایس میں ہیں لیکن مسلمانوں کو سرکاری اسکیمات سے منظم انداز میں محروم کیا جا رہاہے اور کوئی پرسان حال نہیں ہے۔