حکومت کی نااہلی سے ٹماٹر سرخ سونا بن گیا

   

اندرا شیکھر سنگھ
عام انتخابات کیلئے اب بمشکل ایک سال سے بھی کم عرصہ باقی رہ گیا ہے ۔ نریندر مودی حکومت ایک ایسی رکاوٹ یا خلل کا سامنا کررہی ہے جس نے ایسا لگتاہے کہ خود کی ایک سرخ دائرہ کے ذریعہ نشاندہی کی ہے ۔ لوگ اس سرخ دائرہ کے حامل خلل سے کافی پریشان ہیں کیونکہ اس کا تعلق لوگوں کی جیبوں سے اور ان کی جیبوں پر پڑنے والے اثر سے ہے ۔ دراصل ہم بات کررہے ہیں ٹماٹر کی ، ٹماٹر کی مہنگائی نے غصہ و برہمی کے مارے عوام کے چہروں کو سرخ کردیا ہے ۔ ملک کے مختلف مقامات پر ٹماٹر جو کبھی دو روپئے ، پانچ روپئے اور دس روپئے فی کلو گرام فروخت ہوتا تھا اب 140 – 150 روپئے فی کلو گرام اور چند ایک مقامات پر 250 روپئے فی کلو گرام فروخت ہورہا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹماٹر کی قیمت پٹرول کی قیمت سے دوگنی ہوگئی ہے ۔ رپورٹس میں ٹماٹر کے افراط زر میں 445 فیصد اضافہ کے اشارے دیئے گئے ہیں ۔ اسی طرح اب ٹماٹر بھی ایک اوسط ہندوستانی کی دسترس سے باہر ہوگیا ۔ ویسے بھی عام ہندوستانی شہری پہلے ہی سے مہنگائی خاص کر اشیائے مایحتاج کی آسمان کو چھوتی قیمتوں سے پریشان ہے ۔ اب حال یہ ہوگیا ہے کہ ٹماٹر قیمتی اشیائے ، خوردنی میں شامل ہوگئے ہیں اور فی الوقت اسے سرخ سونے سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔ حالیہ عرصہ کے دوران ٹماٹر جیسے ہی مہنگا ہوا کئی ایسے کسانوں کی کہانیاں منظر عام پر آئی جس میں بتایا گیا کہ ٹماٹر کی مہنگائی نے انہیں غریب سے لکھ پتی اور لکھ پتی سے کروڑ پتی بنادیا ہے اور جہاں تک ٹماٹر کے سرخ سونے میں تبدیل ہونے کا سوال ہے کئی مقامات پر عام آدمی یہ سوچنے لگا ہے کہ وہ 2 لیٹر پٹرول خریدے یا پھر اتنی ہی رقم میں ایک کلو ٹماٹر خریدکر اپنے گھر لے جائے ۔ مہنگائی صرف ٹماٹر تک محدود نہیں ہے ۔ گزشتہ ماہ سبزیاں اس قدر مہنگی ہوگیئں تھیں کہ متوسط ہندوستانی شہریوں کیلئے خاص طور پر کام کرنے والے ہندوستانیوں کیلئے سبزیاں خریدنا مشکل ہوگیا تھا ۔ یعنی وہ مہنگائی کے نتیجہ میں مختلف سبزیاں خریدنے کے متحمل نہیں تھے ۔ مثلاً مختلف قسم کی پھلیاں (گنوار ، بنیس ، سیم کی پھلی) ادرک ، کدو ، کریلا (لوکی توری) اور بھینڈی ، لیموں وغیرہ عام شہریوں کی قوت خرید سے باہر ہوگئے تھے ۔ لوگ سبزیوں کی بجائے دالوں پر گزارا کرنے لگے تھے ۔ ملک میں سبزیوں کی قیمتوں میں خطرناک حد تک اضافہ نے ریزرو بنک آف انڈیا کو ایک مطالعاتی جائزہ میں یہ انتباہ دینا پڑا کہ ٹماٹر کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ شرح افراط کی رفتار میں تیزی پیدا کردے گی ۔ ملک کی بڑی بڑی ریٹیل CHAINS جیسے میکڈونالڈ نے ٹماٹر کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کو دیکھتے ہوئے اپنے برگرس اور ریاپس سے ٹماٹر کو ہی نکال دیا جبکہ علاقائی زبانوں کے میڈیا میں ایسی بے شمار رپورٹس موجود ہیں جس میں ٹماٹر کے کھیتوں میں سرقوں اور انہیں لوٹ لینے کے بارے میں بتایا گیا ہے ۔ کہیں کسان ٹماٹرکی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ کے باعث کروڑ پتی بن گئے اور بعض مقامات پر ٹماٹر کے کھیتوں میں سرقہ کی وارداتوں کے باعث کچھ کسان اپنی دولت سے محروم بھی ہوئے ۔ ٹماٹر کی قیمتوں میں اضافہ سے پیدا شدہ بحران کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ یہ عجیب و غریب موسم کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے اور جاریہ سال ہندوستان کو بہت ہی خراب موسم کا سامنا ہے ۔ کہیں شدید بارش تو کہیں شدید گرمی دیکھی گئی جس کے نتیجہ میں ربیع کے دوران شمالی اور وسطی ہندوستان میں گیہوں کی پیداوار متاثر ہوئی ۔ مزید براں یہ کہ طوفانوں اور بے وقت کی بارش نے شمالی ہند میں آف سیزن پروڈکشن کو متاثر کرکے رکھ دیا ہے ۔ خاص کر ہماچل پردیش ، اترکھنڈ اور کشمیر میں پیداوار کو شدید نقصان پہنچا جبکہ ملک کے جنوبی اور ساحلی علاقوں میں ٹماٹر کے کھیتوں کو نقصانات برداشت کرنے پڑے ۔ اگرچہ ہماچل پردیش میں بعض کسانوں کوفی کلو گرام ٹماٹر کی قیمت 100 روپئے حاصل ہوگئی لیکن ان کی کامیابی کچھ عرصہ تک ہی برقرار رہی ۔ شدید طوفانی بارش نے نہ صرف ٹماٹر کی فصلوں کو تباہ و برباد کردیا بلکہ پہاڑی علاقوں کی سڑکوں اور قومی شاہراہوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا جس کے باعث کئی علاقوں میں سپلائی میں خلل پڑا ۔ ایک طرف موسمیاتی تبدیلیوں نے یقیناً تباہ کن کردار ادا کیا وہیں ہندوستان میں ٹماٹر ، آلو اور پیاز جیسی تین اہم اور بنیادی سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ۔ آپ کو یاد دلادیں کہ کچھ سال قبل مودی حکومت نے آپریشن گرینس Operation Greens اور TOP (ٹماٹر ، پیاز اور آلو) پروگرام شروع کیا تھا جس کے ذریعہ مال برداری اور انفراسٹرکچر سبسیڈی کی پیشکش کی گئی تھی تاہم اس آپریشن اور پروگرام کے درمیان سرخ فیتہ حائل ہوگیا اور جو موجودہ بحران ہے اس سے نمٹنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ عجیب و غریب موسم نے اس اسکیم کو آزمائش میں مبتلا کردیا اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت کا مذکورہ آپریشن اور پروگرام ناکام ہوگیا ۔ اس کیلئے حکومت سب سے زیادہ ذمہ دار ہے ۔ وقت پر حقیقی اقدامات پر عمل آور ی کی بجائے حکومت عوام سے اس بحران کا حل طلب کررہی ہے اور وہ بھی اس وقت جبکہ یہ بحران اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گیا ہے اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ حکومت ٹماٹو گرانڈ چیلنج کے بھیس یا بہانہ سے یہ کام کررہی ہے ۔ حالانکہ قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنا حکومت اور حکومتی اداروں کا کام ہے ۔ ٹماٹو گرانڈ چیلنج ایسا لگتا ہے کہ مسئلہ کو حل کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش سے کہیں زیادہ ایک تشہیری چال ہے ۔ حکومت کو کچھ ایسے اقدامات کرنے چاہئیے جس سے کسان متاثر ہوں اور نہ ہی عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھے ۔ پچھلے سیزن میں ٹماٹر کے کسانوں کی حالت بہت خراب ہوگئی تھی ۔ وہ لوگ ٹماٹر کی گرتی قیمتوں پر برہم ہوتے ہوئے ٹماٹر سڑکوں پر پھینکنے لگتے تھے ۔ اس وقت کسانوں کو ان کے ٹماٹر کیلئے فی کیلو ایک روپئے یا دو روپئے موصول ہورہے تھے ۔ اسی طرح پیاز کی قیمتیں بھی گرگئیں تھیں ۔ مہاراشٹرا میں کئی کسانوں نے خودکشی کی ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں بازار کی ان طاقتوں سے بچایا جائے جو جان بوجھ کر ٹماٹر اور پیاز کی قیمتوں کو گھٹاتے اور بڑھاتے ہیں ۔ بدبختی کی بات یہ ہے کہ شمالی اور جنوبی ہند میں جدوجہد کررہے اور حالات کے مارے کسانوں کی مدد کیلئے کوئی سرکاری اسکیم یا پروگرام نہیں ہے ۔ نتیجہ میں بڑے پیمانے پر سبزی ضائع ہوجاتی ہے اور کسانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 80 کروڑ ہندوستانی شہری اپنے فوڈ راشن کیلئے حکومت پر انحصار کرتے ہیں ۔ لیکن فصلوں کی تباہی روکنے حکومت کے پاس کوئی ٹھوس منصوبے نہیں ہیں ۔ NAFED اور دوسری ایجنسیاں بھی ہیں لیکن انہیں بھی کسانوں کی جانب سے اگائی گئی سبزیوں کی بربادی دکھائی نہیں دیتی جبکہ حکومت شہری آبادی کو یہ کہتے ہوئے تھپکیاں دیتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور فوڈ اکنامی کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ ٹماٹر کی قیمتوں میں اضافہ انتظامیہ اور زرعی شعبہ کی ناکامی ہے ۔ اگر ٹماٹو گرانڈ چیلنج میں کسانوں کو شامل کیا جاتا تو ایسی نوبت نہیں آتی جیسی اب آئی ہے ۔