حکومت کے اندرون سرگرم ’چھوٹی حکومت‘ بڑا چیلنج

   

پی چدمبرم
ہر حکومت حیرانی میں پڑجاتی ہے جب اسے کسی سنگین بحران کا سامنا ہوجاتا ہے۔ کوئی تو غلطی پر ہوتا ہے، لیکن ذمہ داری کوئی نہیں لے گا۔ آخرکار، معاملہ حکومت کے سربراہ… چیف منسٹر یا وزیراعظم کی میز پر رُک جاتا ہے۔ تاہم، گہرائی سے تحقیقات پر پتہ چل جائے گا کہ وہ اولین شخص نہیں جسے موردِ الزام ٹھہرانا چاہئے، لیکن پارلیمانی نظامِ حکومت اس کے برعکس ہوتا ہے۔
سنگین اموات
دماغ کی سوزش یا دماغی بخار کی وبا جس نے ضلع مظفرپور میں ابھی تک 117 جانیں تلف کردی ہیں۔ بہار کا معاملہ زیربحث ہے۔ مرکزی وزارت صحت کے مینجمنٹ انفرمیشن سسٹم کے مطابق اس ضلع میں موجود تمام 103 پرائمری ہیلت سنٹرز اور واحد کمیونٹی ہیلت سنٹر کی ریٹنگ 5 میں سے 0 ہے کیونکہ وہ نگہداشت صحت کے لازمی ضرورتوں (میڈیکل آفیسر، نرس؍ دائی) کی تکمیل نہیں کرتے ہیں۔ مظفرپور کا سری کرشنا میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل جہاں متاثرہ بچوں کا علاج کیا گیا، وہاں کا پیڈیاٹرک یونٹ اُس کسوٹی پر کھرا نہیں اُترتا کہ اسے پیڈیاٹرک آئی سی یو قرار دیا جاسکے۔ ان حقائق کے پیش نظر کون ہے جسے ذمہ داری قبول کرنا چاہئے؟ خود سے تو کوئی آگے نہیں آئے گا، اس لئے ہم معمولی سفید رنگ کے مگر مزیدار پھل لیچی پر ذمہ داری ڈال دیں گے! ڈاکٹروں نے کہا کہ لیچی کھانے پر وہی بچے متاثر ہوئے جنھوں نے رات میں کھانا نہیں کھایا تھا۔ اور کیونکر انھوں نے رات کا کھانا نہیں کھایا تھا؟ کیونکہ وہ غریب ہیں اور انھیں کھانا نصیب نہیں۔ کیا اس سے زیادہ المناک اور تکلیف دہ کچھ ہوسکتا ہے؟ (2008 اور 2014ء کے درمیان دماغی بخار سے 6,000 اموات ہوچکی ہیں۔)
چند دن قبل سات صفائی کرمچاری گجرات کے سورت میں ایک سپٹک ٹینک کو خالی کرنے کے دوران فوت ہوگئے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ اس طرح کا واقعہ پیش آیا، اور افسوس کی بات ہے کہ یہ آخری بھی نہیں ہوگا۔ سپٹک ٹینک کو صاف کرنا کوئی راکٹ سائنس تو ہے نہیں: اس کیلئے مشینیں ہیں اور ہندوستانی دریافت (بنڈیکوٹ) کیرالا میں ایک اسٹارٹپ نے تیار کیا ہے۔ جب آدمیوں کو ناگزیر حالت میں ڈرینج اور سپٹک ٹینکوں کی صفائی کیلئے مشغول کرنا ہی پڑے تو خاص نوعیت کا لباس، ماسک اور آکسیجن سلنڈرس بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی سامان کی قلت نہیں یا سورت جیسے میونسپل کارپوریشن کی مالی گنجائش سے بالاتر نہیں، جو گجرات میں امیر بلدیات میں سے ہے، پھر بھی سات آدمیوں کو مرنے دیا گیا۔ (2011 اور 2018ء کے درمیان 114 صفائی کرمچاری ہندوستان کی تمام ریاستوں میں فوت ہوجانے کی اطلاعات ہیں۔)
حیران کن غفلت
ایک اور ناقابل یقین و حیران کن مثال ہے: دہلی میں اوسطاً چار افراد ہر روز سڑک حادثات میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اس طرح آپ سوچ سکتے ہیں کہ صرف دہلی میں چا ر افراد کل ہلاک ہوں گے، چار اس کے بعد والے دن، اور یونہی اوسطاً چار افراد۔ اس تعداد کا معمولی حصہ ہی دنیا بھر میں پورے سال کے دوران فضائی حادثات میں ہلاک ہوتا ہے! کیوں ہم نے فضائی سفر کیلئے سخت قواعد اور سڑک پر سفر کیلئے ناقص قواعد بنا رکھے ہیں؟ (2011 اور 2017ء کے درمیان دہلی میں پیش آئے سڑک حادثات میں 12,724 افراد ہلاک ہوئے۔)
کیا آپ نے دہلی میں باراپولا فلائی اوور پر سفر کیا ہے جو دہلی حکومت کے پی ڈبلیو ڈی کی ’فخریہ‘ تعمیر ہے اور جس کی تعمیر کیلئے کئی سال لگے؟ یہ فلائی اوور اوسط درجہ کا ہے، اس کا ڈیزائن اوسط ہے، وہاں کا سفر اوسط ہے، لیکن تعمیر کا معیار خوفناک ہے۔ دونوں طرف پشتہ کی دیواروں پر نظر ڈالئے… ٹوٹے کنارے ہیں یا پھر دیواریں شکستہ ہیں، ناہموار اونچائی ہے، سلابس میں دراڑیں پڑگئی ہیں، نہایت خراب پلاسٹنگ اور پینٹنگ کا کام ہوا ہے، مختصر یہ کہ بہت بدشکل فلائی اوور ہے۔ پھر بھی یہ کوالیٹی کے تمام ٹسٹ میں پاس ہوگیا، کنٹراکٹر کو ادائیگی کردی گئی (اور شاید تہنیت پیش کی گئی) اور فلائی اوور کا 2010ء میں افتتاح کردیا گیا۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوگا کہ اسے مرمتی کاموں کیلئے بند کرنا پڑے گا۔
ارادہ اور عمل آوری
ان تمام معاملوں میں کہیں بھی… اور آپ دیگر معاملوں پر بھی غور کرسکتے ہیں… پالیسی کی کوئی ناکامی نہیں ہے۔ کوئی بھی حکومت کی پالیسی ہیلت سنٹروں اور اسپتالوں کی تعمیر، انھیں سازوسامان سے لیس کرنا اور اسٹاف فراہم کرنا؛ غلاظت کی آدمیوں کے ذریعے صفائی کو ختم کرنا؛ ٹریفک قواعد لاگو کرنا اور سلامتی کو یقینی بنانا؛ معیاری انفراسٹرکچر تعمیر کرنا اور شہروں اور قصبات کو خوبصورت بنانا؛ وغیرہ وغیرہ ہوتی ہیں۔ مقننہ یا عاملہ (یعنی وزراء) پالیسی بناتے ہیں اور ظاہر ہے پالیسی پر اچھی طرح عمل درآمد چاہتے ہیں۔ لیکن نیت و ارادہ اور عمل آوری کے درمیان بڑی خلیج ہے۔ کیوں؟ ہم یہ کہتے ہوئے پس و پیش کرتے ہیں، لیکن اسے کہنا ہی چاہئے: حکومت (اصل حکومت) کے اندرون ایک اور حکومت (چھوٹی حکومت) ہے۔ یہی چھوٹی حکومت ہے جس نے کم از کم ہندوستان کے معاملے میں اصل حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی ناکام کیا ہے۔
میں اس نکتہ کو دو متضاد مثالوں کے ذریعے واضح کرتا ہوں۔ نوٹ بندی پالیسی کی فاش غلطی ہوئی؛ وزراء جنھوں نے اس پالیسی کو ذہن میں لایا اور جو اصل حکومت کا حصہ ہیں، انھیں ضرور ذمہ داری قبول کرنا چاہئے۔ دوسری طرف جی ایس ٹی اچھی پالیسی ہے۔ اگر اس سے نوٹ بندی کی طرح پریشانی ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری چھوٹی حکومت پر عائد کرنا چاہئے، سوچھ بھارت اچھی پالیسی ہے، لیکن ریاستوں اور دیہات کا کھلے عام رفع حاجت سے پاک درجہ (ODF) حاصل کرلینے کے بارے میں غلط اعداد و شمار چھوٹی حکومت کا دھوکہ ہے۔ اُجوالا اچھی پالیسی ہے، لیکن سالانہ تین متبادل سلنڈر وں کی شرح چھوٹی حکومت کی ناکامی ہے۔
جب ہم ووٹ ڈالتے ہیں، ہم یعنی عوام اصل حکومت کیلئے ووٹ دیتے ہیں۔ ایک چھوٹی حکومت بھی ہے جس پر ہم عوام کا کچھ کنٹرول نہیں ہے۔ اُن کے سلیکشن، رکروٹمنٹ، ٹریننگ، جانچ، پوسٹنگ، تخمینہ یا پروموشن کے اُمور میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ہے۔ ہم اسی طرح کا کام کاج جاری رکھے جانے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ ہمیں ضرور چھوٹی حکومت کا بھرپور جائزہ لینا چاہئے۔ جس طرح ہم عوام اصل حکومت اور اس پر فائز اشخاص کو ہر پانچ سال میں جزا یا سزا دیتے ہیں، اسی طرح ہمیں کوئی راستہ ڈھونڈ نکالنا چاہئے کہ ہر پانچ سال یا اس سے کم مدت میں چھوٹی حکومت اور اس کے قابضین کو بھی جزا یا سزا دی جاسکے۔ آج ہمیں درپیش بڑا چیلنج پالیسی سازی نہیں ہے۔ یہ چیلنج تو پالیسی پر مؤثر، کفایتی اور عمدگی سے عمل آوری کا ہے۔