لاک ڈاون کے دوبارہ نفاذ میں پس و پیش، سرکاری اور خانگی ہاسپٹلس کی ابتر صورتحال سے عوام پریشان
حیدرآباد: تلنگانہ میں کورونا کے کیسیس میں دن بہ دن اضافہ کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا ماننا ہے کہ ریاست میں کورونا وائرس تھرڈ اسٹیج میں داخل ہوچکا ہے ۔ کمیونٹی ٹرانسمیشن کا خطرہ شدت اختیار کرگیا اور موجودہ صورتحال میں حکومت اور انتظامیہ بے بس دکھائی دے رہا ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں میں گریٹر حیدرآباد کے علاوہ ریاست کے تقریباً تمام اضلاع دوبارہ کورونا کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ حکومت کے روزانہ کے میڈیکل بلیٹن میں کورونا پازیٹیو مریضوں کی تعداد تقریباً 2000 تک دکھائی جارہی ہے جبکہ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق ریاست میں کورونا کے روزانہ منظر عام پر آنے والے مریضوں کی تعداد تقریباً 3000 ہے۔ حکومت کورونا سے اموات کے بارے میں جو اعداد و شمار پیش کر رہی ہے، اس پر بھی طبی ماہرین کو اعتراض ہے۔ سرکاری اور خانگی ہاسپٹلس میں کورونا سے فوت افراد کی تعداد روزانہ تقریباً 100 ہے لیکن حکومت 10 کے قریب اموات کی تصدیق کر رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کورونا کے بارے میں عوام میں خوف کا ماحول پیدا ہونے سے بچانے تعداد کم بتائی جارہی ہے۔ کل ایک دن میں ریاست میں 1590 نئے کیسیس بلیٹن کے مطابق منظر عام پر آئے جس میں گریٹر حیدرآباد حدود میں پازیٹیو کیسیس کی تعداد 1277 بتائی گئی ۔ اس کے علاوہ اضلاع میڑچل ، رنگا ریڈی ، سوریا پیٹ ، سنگا ریڈی ، محبوب نگر ، نلگنڈہ ، کریم نگر ، ونپرتی ، نظام آباد ، میدک ، نرمل ، وقار آباد ، کتہ گوڑم ، جنگاؤں ، گدوال ، سرسلہ، سدی پیٹ ، ورنگل ، نارائن پیٹ، پدا پلی، بھونگیر ، کاما ریڈی اور عادل آباد میں بھی نئے کیسیس منظر عام پر آئے ۔ گریٹر حیدرآباد کو چھوڑ کر 23 اضلاع کورونا کی لپیٹ میں ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دوسرے مرحلہ میں کورونا نے ساری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ موجودہ صورتحال میں حکومت یہ طئے کرنے سے قاصر ہے کہ وہ کورونا پر قابو پانے کیا حکمت عملی اختیار کرے۔ طبی ماہرین نے حکومت کو گریٹر حیدرآباد و بڑے اضلاع کے شہری علاقوں میں دوبارہ لاک ڈاؤن کی تجویز پیش کی جس سے چیف منسٹر نے اتفاق بھی کیا تھا لیکن محکمہ فینانس کی جانب سے لاک ڈاؤن کی مخالفت کی گئی۔ اطلاعات کے مطابق تین ماہ کے لاک ڈاون کے بعد تلنگانہ کی آمدنی میں کسی قدر اضافہ ہوا ہے ۔ ایسے میں دوبارہ لاک ڈاؤن سے حکومت کی آمدنی متاثر ہوگی اور سرکاری ملازمین کو مکمل تنخواہ کی ادائیگی میں دشواری ہوسکتی ہے ۔ ان حالات میں حکومت دوبارہ لاک ڈاون کے نفاذ میں پس و پیش کر رہی ہے۔ سرکاری اور خانگی ہاسپٹلس میں بستروں کی کمی کے نام پر مریضوں کو شریک کرنے سے انکار کیا جارہا ہے ۔ ایک اندازہ کے مطابق گریٹر حیدرآباد کے حدود میں کورونا کی ابتدائی علامات کے حامل کئی ہزار افراد گھروں پر علاج کو ترجیح دے رہے ہیں۔ بستروں کی عدم فراہمی اور خانگی ہاسپٹلس میں بھاری رقومات کا مطالبہ عوام کو گھر پر علاج کے لئے مجبور کر رہا ہے۔ ایسے میں آکسیجن سلینڈرس کی مانگ میں اضافہ ہوچکا ہے۔ بعض رضاکارانہ تنظیموں اور جماعتوں کی جانب سے مفت سلینڈرس کی سربراہی کی پیشکش کی گئی لیکن درکار تعداد میں سلینڈرس دستیاب نہیں ہیں جس کے سبب کئی مریض آکسیجن کے بغیر گھروں پر رہنے کیلئے مجبور ہوچکے ہیں۔ حکومت کارپوریٹ ہاسپٹلس پر کنٹرول کرنے میں عملاً ناکام ہوچکی ہے ۔ کورونا کا خوف عوام میں اس قدر بڑھ چکا ہے کہ لوگ اپنے طور پر مکانات تک محدود رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ہزاروں مائیگرنٹ ورکرس اپنے آبائی مقامات واپس ہوچکے ہیں اور کئی دولتمند خاندان فارم ہاؤز منتقل ہوگئے۔ قریبی اضلاع نظام آباد ، محبوب نگر اور کریم نگر میں مکانات کے کرایوں میں اضافہ ہوچکا ہے کیونکہ حیدرآباد سے کئی خاندان کورونا کے خوف سے ایک تا دو ماہ کیلئے اضلاع میں قیام کرنے کیلئے منتقل ہوچکے ہیں۔ شہر میں کورونا کے خوف سے سڑکوں پر ٹریفک میں کمی دیکھی جارہی ہے۔