حیدرآباد اور تلنگانہ میں پولیس راج ، جمہوری حکمرانی کا تصور ختم

   

بھیم آرمی سربراہ چندر شیکھر راؤ کو جلسہ کی اجازت نہ دینے پر جہدکار کنن گوپی ناتھ کا شدید ردعمل
حیدرآباد۔28جنوری(سیاست نیوز) شہر حیدرآباد اور تلنگانہ میں پولیس کا راج چل رہا ہے اور جمہوری حکمرانی کا تصور ختم ہوتا جا رہاہے کیونکہ شہرحیدرآباد میں احتجاجی مظاہروں کے لئے پولیس کی اجازت کے حصول کی شرط عائد کیا جانا عوام کے بنیادی حقوق کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ سابق آئی اے ایس عہدیدارو ممتاز جہد کار مسٹر کنن گوپی ناتھن نے حیدرآباد میں بھیم آرمی سربراہ چندر شیکھر آزاد کوجلسہ کی اجازت نہ دیئے جانے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ انہو ںنے روزنامہ سیاست سے کی گئی بات چیت کے دوران کہا کہ ریاستی حکومت کی جانب سے عادء کی جانے والی پابندیوں سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ریاستی حکومت پولیس کے ذریعہ عوام کے احساسات کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے اور ان کوششوں کی شدت سے مذمت کی جانی چاہئے ۔ کنن گوپی ناتھن نے بتایا کہ حیدرآباد اور تلنگانہ کے عوام کو چاہئے کہ وہ اپنے حقوق کو پامال ہونے سے بچانے کے لئے عدالت سے رجوع ہوں کیونکہ اگر ایسی ہی کاروائیوں کا سلسلہ جاری رہا تو ایسی صورت میںپولیس کو مظالم اور غیر قانونی حرکتوں کی عادت پڑجائے گی اور عوام بھی ان مظالم کو برداشت کرنے لگ جائیں گے تو پولیس اپنی کامیابی تصور کرنے لگے گی۔ انہو ںنے شہر حیدرآباد میں کارڈن اینڈ سرچ آپریشن کی اطلاعات پر بھی حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ایسی کاروائیاں ہیں جو کہ فوج انجام دیتی ہے اور حیدرآباد میں پولیس کی جانب سے شہریوں کے آدھار اور دیگر تفصیلات طلب کرنے پرشہریوں کی جانب سے شناخت دکھانے پر بھی حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ پولیس کو جو اختیار نہیں ہے وہ کام کر رہی ہے اور پولیس کے کام میں عوام کی جانب سے تعاون پولیس کی حوصلہ افزائی کے مماثل ہے۔کنن گوپی ناتھن نے کہا کہ حیدرآباد میں پولیس کی جانب سے کی جانے والی کاروائیوں پر لگام لگانے کیلئے سماجی جہدکاروں کو مشترکہ طور پر عدالت سے رجوع ہوتے ہوئے درخواست داخل کرنی چاہئے کیونکہ پولیس کی ان کاروائیوں پر اختیار کی جانے والی خاموشی کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ انہو ںنے بتایا کہ حیدرآباد میں پولیس کی کاروائی کے خلاف آواز نہ اٹھائے جانے اور اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے سرگرم جدوجہد نہ کئے جانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حیدرآباد میں جدوجہد اور احتجاج کا کلچر نہیں رہا اور نوجوانوں میں یونیورسٹی پالیٹکس کا کلچر نہ ہونے کے سبب یہ مشکلات پیدا ہورہی ہیں ان سے نمٹنے کیلئے سیاسی جماعتوں اور قائدین پر انحصار کے بجائے سماجی جہد کاروں کو متحد ہوتے ہوئے عدالت کے ذریعہ انسانی حقوق کے تحفظ کے اقدامات کرنے چاہئے اور عوام میں شعور اجاگر کرتے ہوئے انہیں اس بات سے واقف کروانے کی ضرورت ہے کہ پولیس عوام کے تحفظ کی نوکری کرتی ہے اور عوام کی جانب سے ادا کئے جانے والے ٹیکس سے پولیس اہلکاروں کو تنخواہ ادا کی جاتی ہے ۔ دستور میں دئیے گئے حقوق کا تحفظ کرنا محکمہ پولیس کی ذمہ داری ہے اور اگر کوئی احتجاج کرتا ہے تو اس کو روکنے کے بجائے پولیس کوچاہئے کہ دیگر شہریوں کو مشکلات سے بچانے کیلئے متبادل راستوں کی فراہمی کے علاوہ امن و ضبط کے قیام کے اقدامات کو یقینی بنائے لیکن تلنگانہ میں پولیس احتجاج کو کچلتے ہوئے دستوری حقوق کو پامال کر رہی ہے ۔ واضح رہے کہ مسٹر کنن گوپی ناتھن نے سابق میں یہ کہہ چکے ہیں کہ احتجاج کے لئے اجامت طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اجازت طلب کرتے ہوئے کیا جانے والا احتجاج محض ایک کنسرٹ ہے کیونکہ جس انتظامیہ اور حکومت کے رویہ کے خلاف احتجاج کیا جا رہاہے اس سے اجازت حاصل کرتے ہوئے اسے تسلیم کرنا ہوتا ہے اسی لئے احتجاج کیلئے اجازت کے کلچر کو ہی ختم کیا جانا چاہئے ۔