حیدرآباد اور حیدرآبادی عوام سے میری بے پناہ محبت

   

محمد ریاض احمد
متحدہ ہندوستان میں حیدرآباد دکن کی مملکت آصفیہ یا سلطنت آصف جاہی (1724-1948)، اس کے حکمرانوں، اپنی رعایا کیلئے ان کی گراں قدر فلاحی و بہبودی خدمات، ان کی رعایا پروری، انسانیت دوستی، ان کی دولت و شہرت، طرز حیات، سادگی، شہزادوں، شہزادیوں کی تعلیم و تربیت غرض نظام الملک آصف جاہ اول نواب میر قمرالدین علی خان صدیقی سے لے کر آصف سابع اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خان صدیقی بہادر کی طرز حکمرانی کے ساتھ ساتھ آصفجاہ، ہشتم والا شان نواب میر برکت علی خان مکرم جاہ بہادر کی طرز زندگی کا بغور جائزہ لیں تو عقلیں دَنگ رہ جاتی ہیں اور ہم خود سے سوال کر بیٹھتے ہیں کہ کیا ایسا بھی ہوتا تھا۔ سلطنت آصف جاہی اور اس کی تاریخ کے مطالعہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی افسانوی دنیا میں پہنچ گئے ہیں اور پریوں کی کہانیاں (Fairy Tales) ہمارے ذہنوں میں گردش کرنے لگتی ہیں۔ آصف جاہی حکمرانوں کی طرز حیات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں جہاں شاہی جاہ و جلال دکھائی دیتا ہے، وہیں ان کی زندگی کی سادگی ہمیں متاثر کئے بناء نہیں رہتی۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ آصف سابع اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خان بہادر کو متحدہ ہندوستان کے پہلے ارب پتی ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ وہ اس قدر دولت کے مالک تھے، جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، اُن کے پاس نیلم ، پکھراج لاقیمت زمرد ، یاقوت اور ہیرا نظام ڈائمنڈ موتیوں کا سب سے بڑا کلیکشن اور سنگ سیم کے ایسے لاقیمت ذخائر موجود تھے جس کا آج بھی کوئی تصور نہیں کرسکتا۔ ماہرین اقتصادیات اور عالمی میڈیا میں شائع ہوچکی رپورٹس کے مطابق نواب میر عثمان علی خان بہادر اُس دور میں 236 ارب ڈالرس کے مالک تھے۔ اب بھی دنیا اس بات کو لے کر حیران ہے کہ وہ 185 قیراط کا جیکب ڈائمنڈ پیپر ویٹ کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔ آصف جاہی حکمرانوںنے حیدرآباد دکن کو متحدہ ہندوستان کی تقریباً 565 دیسی یا نوابی ریاستوں میں سب سے بڑی سب سے خوشحال اور متمول ریاست میں تبدیل کردیا۔ ایک ایسے وقف جبکہ ہندوستان کا اکثر علاقہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، حیدرآباد میں برقی یا بجلی کی فراہمی کا معقول انتظام تھا۔ آصف جاہی دور میں قائم کئے گئے آبپاشی پراجیکٹس، ریل اور بسوں کا نظام، سرکاری اسپتالوں کا نیٹ ورک، علمی و تحقیقی مراکز، سڑکیں، زیرزمین ڈرینج سسٹم اور سربراہی آب جیسی سہولتوں سے آج بھی عوام استفادہ کررہے ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ نظام ہشتم والا شان نواب میر برکت علی خان صدیقی مکرم جاہ بہادر 14 جنوری 2023ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے جن کے فوری بعد ان کے فرزند اکبر والا شان میر عظمت علی خان عظمت جاہ بہادر نویں نظام مقرر کئے گئے اور اس ضمن میں تاریخی چومحلہ کے دربار ہال میں ان کی والدہ ماجدہ شہزادی اسریٰ جاہ اور دیگر معززین کی موجودگی میں ایک خصوصی تقریب کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ قارئین سیاست کیلئے ہم نے نویں نظام والا شان عظمت جاہ بہادر سے ایک خصوصی انٹرویو لیا جس میں کئی ایک موضوعات پر بات کی گئی۔ تاریخی چومحلہ میں واقع فن تعمیر کے شاہکار چار محلات افضل محل ، مہتاب محل، تہنیت محل اور آفتاب محل میں سے ایک افضل محل میں ہم نے والاشان نواب میر محمد عظمت جاہ بہادر سے بات کی ۔ ان سے ان کی ترجیحات، عزائم و ارادوں، منصوبوں اور ڈریم پراجیکٹس سے متعلق سوالات کئے۔ آپ کو ان کے بارے میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کی سادگی مثالی ہے۔ اگرچہ وہ کئی ایک خوبیوں کے مالک ہیں لیکن والاشان کی خوبیوں میں ان کی سادگی نمایاں ہے۔ وہ عام لوگوں میں بھی گھل مل جاتے ہیں۔ اپنی ترجیحات سے متعلق سوال پر انہوں نے ایک پراثر مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ’’حیدرآباد میں زیادہ سے زیادہ وقت گذارنا میری ترجیح ہے اور خاص طور پر حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں لڑکیوں کی تعلیم انہیں تعلیم کے ذریعہ بااختیار بنانے پر خصوصی توجہ مرکوز کروں گا۔ اس ضمن میں انہوں نے بطور خاص مکرم جاہ اسکول کا حوالہ دیا ہے جسے ہندوستان بھر میں نمبرون بجٹ اسکول ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور جہاں طلبہ بالخصوص طالبات کے تعلیمی کارنامے قابل تعریف ہیں۔ والاشان عظمت جاہ بہادر کے مطابق شہر میں مکرم جاہ اسکول کی نئی شاخیں بھی قائم کی جاسکتی ہیں۔ والاشان عظمت جاہ بہادر نے اپنی ترجیحات سے متعلق مزید بتایا کہ نظام دوم نواب میر نظام علی خاں کے دور کی پیلی گیٹ پرانی حویلی کی بڑے پیمانے پر تزئین نو کی جائے گی ۔ اس کے ساتھ ہی لاڈ بازار دروازہ شمس الامراء کمان، شاہی جلوہ خانہ (جوم مکرم جاہ ٹرسٹ کی ملکیت ہے) اور آصف جاہی دور کی تاریخی عمارتوں کی تزئین نو کی جائے گی ۔ واضح رہے کہ عالمی مقابلہ حسن کے موقع پر چارمینار اور خاص طور پر لاڈ بازار اور چومحلہ پیالیس کے ساتھ ساتھ فلک نما پیالیس (تاج فلک نما) کا دنیا بھر کی حسیناؤں نے دورہ کیا اور وہ ان تاریخی عمارتوں سے کافی متاثر ہوئیں ۔ والا شان عظمت جاہ بہادر کی و قیامت و نگرانی میں نہ صرف چومحلہ پیالیس کے چار محلات بلکہ تاریخی عاشور خانہ کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جارہی ہے اور تزئین نو کے یہ کام بہت ہی احتیاط کے ساتھ انجام دیئے جاتے ہیں ۔ والاشان عظمت جاہ بہادر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ مکرم جاہ ایجوکیشنل ٹرسٹ کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں کو ترقی دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے جبکہ مکرم جاہ اسکول کے طلبہ کو اسکالرشپس فراہم کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ خانوادہ آصف جاہی کی وراثت کے تسلسل کو آگے بڑھانا اور تاریخی آثار کی عظمت رفتہ کو بحال کرنا بھی ان کی اولین ترجیح ہوگی۔ آپ کو بتادیں کہ مکرم جاہ ٹرسٹ فار ایجوکیشن اینڈ لرننگ ایک تعلیمی تنظیم ہے جس کا قیام والا شان مکرم جاہ بہادر مرحوم و مغفور نے 1971ء میں عمل میں لایا۔ مسرت محل میں MJTEL کام کرتا ہے۔ انہوں نے 8 محلات کو تعلیمی مقاصد کیلئے دیا ہے۔ جہاں تک چومحلہ پیالیس کا سوال ہے، آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ قطب شاہی حکمرانوں نے چارمینار (چارمینار والی مسجد اور مدرسہ) تعمیر کروایا تھا پھر آپ دیکھیں گے کہ اس کے قریب چار کمانوں کی تعمیر عمل میں لائی گئی۔ اس تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے صلابت جنگ نے 1750ء میں اس کی تعمیر شروع کروائی یعنی چومحلہ (چار محلات پر مشتمل) اور آصف جاہ چہارم افضل الدولہ کے دور میں 1857ء اور 1869ء کے درمیان اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ چومحلہ کے چار محلات کے ساتھ ساتھ عاشور خانہ بارہ امام، کونسل ہال، ڈرائنگ روم، روشن بنگلہ اور میوزیم دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں والا شان عظمت جاہ بہادر نے بتایا کہ 2011ء سے پہلے انہوں نے اپنے پردادا اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خان بہادر پر ایک ڈاکیومنٹری بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس کا مقصد آصف جاہی حکمرانوں کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کو دور کرنا اور حیدرآبادی تہذیب کو فروغ دینا تھا اور اس کی ایڈیٹنگ اور اسکرپٹ کی تیاری کینیڈین ایڈیٹر کو دی گئی اور جو Finish Product دیا گیا، اس سے وہ مطمئن نہیں، ایسے میں فی الوقت انڈین ایڈیٹر کی خدمات حاصل کررہے ہیں۔ یہاں اسے دوبارہ ایڈٹ کیا جائے گا اور ہندوستانی تناظر میں وہ ڈاکیومنٹری بنائی جائے گی۔ اس سوال پر کہ آیا وہ چریان پیالیس کو Develop کریں گے، ان کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی منصوبہ نہیں بلکہ نوکھنڈا پیالیس اورنگ آباد کے بارے میں بتایا کہ وہ اوقاف کمیٹی کی Safe Custody میں ہے اور مناسب وقت پر اس کی تزئین نو کی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ محرم الحرام کے ضمن میں حیدرآباد آئے ہیں اور ویسے بھی سال میں تین چار مرتبہ حیدرآباد آتے رہتے ہیں۔ ماہ ستمبر میں پھر حیدرآباد آئیں گے اور یہاں زیادہ سے زیادہ وقت گذاریں گے کیونکہ وہ حیدرآباد اور حیدرآباد کے لوگوں سے بہت محبت رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ والا شان عظمت جاہ بہادر اور ان کی بہن شہزادی شہکار کی ابتدائی تعلیم لندن میں ہوئی۔ 1984ء میں انہوں نے لانگ آئی لینڈ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے گریجوکیشن کیا ۔ وہ بتاتے ہیں کہ چونکہ پچپن سے ہی فوٹوگرافی کا شوق تھا اور وہ شوق انہیں اپنے والد اور پردادا سے ورثے میں ملا تھا۔ اس لئے Cinematography میں اپنا کریر بنایا۔ والا شان کے مطابق اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خان بہادر کو فوٹوگرافی بہت پسند تھی۔ ان کے والد بھی ایک عظیم فوٹو گرافر تھے ۔ اپنے پردادا اور والد کے اس شوق کے حوالے سے انہوں نے راجہ دین دیال کی لی ہوئی تصاویر کے بارے میں بھی بتایا۔ آپ کو بتادیں کہ والا شان عظمت جاہ بہادر ہالی ووڈ کے ایک مشہور و معروف سنیماٹوگرافر ہیں اور انہوں نے اسٹیون اسپیل برگ، لارڈ رچرڈ اڈنبرا ، نکولاس Roeg ، پال ورہوویان ، ڈوگلاس سلوکامبے اور دیگر مشہور ڈائریکٹرس کے ساتھ کام کیا ہے۔ والا شان ایک بیٹے مراد جاہ کے والد ہیں۔ انٹرویو کے دوران جب بھی ان کے پردادا نواب میر عثمان علی خان بہادر، والد مکرم جاہ بہادر مرحوم و مغفور اور والدہ ماجدہ شہزادی اسریٰ جاہ بہادر کا ذکر آیا ہم نے ان کی آنکھوں میں ایک چمک اور چہرے پر مسکراہٹ بکھری دیکھی۔اپنی سادگی سے متعلق سوال پر انہوں نے بتایا کہ میری تربیت ہی ایسی ہوئی جس وقت میری عمر 13 سال تھی، اس وقت والدین میں علیحدگی ہوگئی۔ میں نے فلم کی تعلیم حاصل کی اور بہن شہکار نے آرٹ کی تعلیم پر توجہ مرکوز کی۔ ہم نے سادگی سے زندگی گزاری۔ 1996ء میں میرے والد نے مجھے فون کیا اور بتایا کہ وہ حیدرآباد جارہے ہیں، میرے ساتھ حیدرآباد آؤ، اس وقت میں بہت جذباتی ہوگیا، میں اور میری بہن حیدرآباد آئے۔ وہ میری زندگی کے یادگار اور ناقابل فراموش دن تھے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وہ جب بھی حیدرآباد آتے ہیں، مکہ مسجد میں واقع اپنے والد کی قبر پر حاضری دیتے ہیں۔ اپنی بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے انہوں نے پرمسرت انداز میں بتایا کہ وہ اور ان کی بہن اپنی والدہ کے ساتھ ہاتھی پر سوار ہوکر چریان پیالیس میں گشت لگایا کرتے تھے۔ انواع اقسام کے جانور اور پرندے ماحول کو خوبصورت بناتے تھے۔ عظمت جاہ بہادر کے مطابق انہیں چیریان پیالیس میں فرش صاف کرنے والوں سے لے کر دیگر ملازمین کے نام بھی یاد ہیں۔ خاص طور پر وہ والد کی خاص جیب اور موٹر سائکلس چلایا کرتے تھے۔ وہ چریان پیالیس سے اپنے والد کے ساتھ جیپ میں بیٹھ کر مسجد جایا کرتے تھے ۔جبکہ مکرم جاہ بہادر اپنی دختر شہزادی شہکار کے ساتھ گھڑ سواری کرتے ہوئے کبھی کبھار چریان پیالیس سے گولکنڈہ قلعہ جاتے۔ان یادوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ کاروں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ فلک نما میں قدیم کاروں کی جب نمائش ہوئی، اس میں زرد سلور گھوسٹ رولس رائس اور دو Napier کاریں بھی (انہیں بحال کرکے) شامل کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حیدرآباد، حیدرآبادی تہذیب، یہاں کی محبت و مروت، ہمدردی انسانیت نوازی اور پکوان دنیا میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ حیدرآبادی میرے لوگ ہیں۔ یہ میری پسند ہیں۔ انہوں نے اپنے شوق کے بارے میں بتایا کہ Scuba ڈائیونگ، کئی چیزوںکو جمع کرنا جیسے فلمس، کتابیں، ساؤنڈ ٹریک ریکارڈس وغیرہ جمع کرنا میرا شوق ہے۔ حیدرآبادی بریانی میری پسندیدہ ڈش ہے۔والاشان عظمت جاہ بہادر سے انٹرویو کے دوران ان کے ٹرسٹ کے ٹرسٹی اور پاور آف اٹارنی محمد ابوالفیض خان اور فیض بن جنگ ٹرسٹیبھی موجود تھے۔ یہ دونوں پائیگاہ خاندان کے ارکان ہیں۔