ڈاکٹر زرینہ پروین
ہندوستان کی متنوع تہذیب ساری دنیا میں اپنی ایک منفرد شناخت اور پہچان رکھتی ہے اور اگر ہم اس کے شاندار ماضی پر ایک طائرانہ نظر دوڑاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے لوگ اس عظم ملک میں آئے اور اس سرزمین پر آباد ہوگئے اور خود کو اس کے مرکزی دھارے میں شامل کرلیا۔ باالفاظ دیگر ہندوستان کی کثیر ثقافت کی جڑیں اس کے متنوع ماضی میں جہاں دنیا کے کئی حصوں سے علاقوں سے لوگ اس سرزمین تشریف لائے اور پہلے ہی سے موجود خوبصورتی میں مزید اضافہ کیا اور یہاں کی رونق بڑھائی۔ قرون وسطیٰ میں جب مختلف گروپوں نے ہمارے ملک پر حملے کئے اس پر قبضہ کیا تو ان کا واحد مقصد فوجی طاقت کے ذریعہ اپنے زیر تسلط علاقہ کو وسعت دینا تھا۔ یعنی وہ گروپس توسیع پسندانہ عزائم کے حامل تھے، چنانچہ اپنی فوجی طاقت اور توسیع پسندی کے ریعہ ان گروہوں نے فتح حاصل کی لیکن طویل مدت میں وہ لوگ ہندوستانی معاشرہ میں ضم ہوگئے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ ہندوستانی ثقافتی ماحول کا ایک لازمی حصہ بلکہ جز لائنفک بن گئے۔ فارسی زبان اور ادب ہمارے ورثے کا انتاہی اہم حصہ ہے جتنا کہ کسی دوسری ہند آریائی زبان کا حصہ ہے۔ یہ ادب نہ صرف اس کی شاعرانہ خوبصورتی کے لئے ہی نہیں بلکہ اس سے حاصل کئے جانے والے اہم تاریخی آثار کے لئے اہمیت رکھتا ہے۔ قرون وسطیٰ کی ہندوستانی تاریخ کو اس کے اصل ماخذی مواد کی مدد سے مکمل طور پر از سر نو تشکیل دینا باقی ہے یہ ماخذی مواد بنیادی طور پر اپنے طرز کی خوبصورت فارسی زبان میں ہے اور بدقسمتی سے اس ملک میں قدیم کلاسکی فارسی زبان کے ماہرین و اسکالرس زیادہ نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ اس ادب کے لئے جس قسم کے رسم الخط استعمال کئے گئے ہیں وہ عام قسم کے مورخ اور ادیب کے لئے یکساں طور پر اجنبی ہیں۔ ویسے بھی یہ سوچنا غلط ہوگا کہ فارسی رسم الخط کوئی بھی جو جدید فارسی پڑھ سکتا ہے ضروری نہیں کہ اس کا Ornamental رسم الخط بھی پڑھ سکے۔ اصل میں دونوں ایک دوسرے بالکل الگ اور جداگانہ ہیں۔ یہ بھی نوٹ کرا ضروری ہے کہ مختلف Ornamental فارسی، عربی رسم الخط میں تحریر کردہ لاتعداد مسودے، مخطوطات، دستاویزات اور فرمان بھی موجود ہیں۔ یہ رسم الخط جیسے شکستہ وغیرہ قرون وسطیٰ کے فارسی ادب میں دلچسپی رکھنے والے اسکالرس کو نیا سیکھنا ہوگا۔ اگرچہ عربی کبھی بھی ہندوستانی ثقافت کا حصہ نہیں بنی جیسا کہ فارسی ہندوستانی معاشرہ کا حصہ بنی لیکن جہاں تک تاریخ کی تشکیل نو کا سوال ہے اس کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ عرب تاجرین سمندری راستوں سے ہندوستانی ساحلی علاقوں میں آئے تھے اور ان عرب تاجرین کا مقامی تاجرین سے باقاعدہ ربط رہتا، مسلسل بات چیت ہوتی جس کے نتیجہ میں عربوں اور ہندوستانی تاجرین کے درمیان تجارتی تعلقات مستحکم ہوئے۔ ان لوگوں نے ادب کے ساتھ ساتھ تبادلہ خیال کیا اور ایسا لگتا ہے کہ اب جو عربی ادب دستیاب ہے ان میں سے کچھ یہاں ہندوستان میں بھی تحریر کئے گئے تھے تاکہ تاریخی حقائق کو قلمبند کیا جاسکے اسی لئے عربی میں تحریریں ہمارے ملک کے مغربی ساحلی علاقوں میں دستیاب ہیں یہ ہمیں بحری سفر کرنے والے تاجرین اور غیر ملکی سرزمین میں ان کے تجربہ کی بہترین تفصیلات فراہم کرتی ہیں۔ مذہبی مواد کے علاوہ دلچسپ سماجی اور اقتصادی سیاسی اور ثقافتی اثرات کو بھی تمام حقائق کے ساتھ اس ادب میں درج کیا گیا۔ فارسی ہندوستانی تہذیب و ثقافت میں اس قدر رچ بس گئی یا اسے ہندوستانی ثقافت میں اس طرح شامل کرلیا گیا ہیکہ وہ ہندوستانی زبانوں میں سے ایک زبان بن گئی ہے اور ہماری تہذیب و ورثہ کا ایک بہت بڑا حصہ ہمیں فارسی میں ہی ملتا ہے۔ فارسی کے برعکس عربی کے بارے میں ایسا نہیں کہا جاسکتا۔ ہمارے ملک میں فارسی، 19 ویں صدی کے اواخر تک عدالتوںکے ساتھ ساتھ ادب میں بھی اظہار خیال کا اہم ذریعہ بنی رہی۔ ہندوستان میں فارسی کے ارتفاع کے بارے میں یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ فارسی زبان نے خود کو اس ملک کی ادبی ضروریات کے عین مطابق ڈھال لیا۔ اس میں رچ بس گئی جس کے نتیجہ میں فارسی زبان اور ادب ہندوستانی تاریخ اور ثقافت کا اٹوٹ حصہ بن چکے ہیں۔ ایران اور ہندوستان کے لوگ ایک ہی آریائی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ ایک Kindered language قدیم فارسی اور ویدک سنسکرت زبان بولتے ہیں۔ اس طرح بنیادی طور پر ان کے مابین نسلی رشتہ داری اور لسانی وابستگی تھی۔ قدیم زمانے میں شروع ہونے والے رابطہ کی تجدید غزنویوں نے کی اور 18 ویں صدی تک ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کے زوال تک مختلف شکلوں میں اس کا سلسلہ جاری رہا۔ شمال میں غزنویوں سے لے کر مغلوں تک اور دکن میں بہیمنی، عادل شاہی، قطب شاہی اور آصفجاہی خاندانوں کے ایران کے ساتھ مختلف شعبوں میں گہرے تعلقات تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ قیمتی تحقیقی مقالے اور اہم کتب پہلے ہی منظر عام پر آچکی ہیں جس میں دکن کی سلطنتوں اور ایران کے درمیان تعلقات کے ساتھ ساتھ ایران اور مغل، بہمنی، عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتوں میں ایرانیوں کی غیر معمولی نمایاں خدمات و کردار پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔ ایسی ہزاروں کتابیں ہیں جن میں ہند۔ ایران بالخصوص دکن کی سلطنتوں کے ساتھ ایرانی تعلقاتت کو پیش کیا گیا ہے۔ مخطوطات کی تعداد یقینا بہت زیادہ ہوتی اگر بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھوں آتشزنی لوٹ مار، قزاقی کے نتیجہ میں ایسے لاکھوں نسخہ ضائع نہ ہوتے دو تباہ کن واقعات جس کے ذریعہ اسلامی تہذیب کی جڑوں کو کمزور کرنے کی پوری پوری کوشش کی گئی وہ 1258 میں تاتریوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی تھی جب جب انسانی جانوں کا بے پناہ نقصان ہوا لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کو موت کی گھاٹ اتاردیا گیا ساتھ ہی لاکھوں کی تعداد میں قیمتی کتابوں کو آگ لگادی گئی انہیں راکھ میں تبدیل کردیا گیا یا پھر ان کتابوں کو تاتاریوں نے دریائے دجلہ میں پھینک دیا جس کے نتیجہ میں دریائے دجلہ کا پانی خون جیسا سرخ اور سیاہی جیسا سیاہ ہوگیا۔ دوسرا سانحہ 1492 میں پیش آیا اور وہ صلیبیوں کے ہاتھوں سقوط قرناطہ تھا جب ملکہ ازابیل اور اس کے شوہر فرنانڈیز کی فوجوں نے اپنی فورس کو باہر رملہ میں قیمتی اور علمی لحاظ سے نادر و نایاب کتابیں نذر آتش کرنے اور مردوں، خواتین اور بچوںکو اندھا دھند قتل کرنے کا حکم دیا اگر مورخین کے بیانات پر یقین کرلیا جائے اور ان لوگوں نے جو کچھ درج کیا اس کے نصف کو بھی تسلیم کرلیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک طویل عرصہ تک کتابیں الاوہ جلانے اور گھروں کو گرم رکھنے کے لئے استعمال کی گئیں اور ہاں مخطوطات کے لکھنے کے اسلوب بھی یکساں متنوع اور شاندار ہیں اور ان میں نقش، نستعلیق، کوفی، ثلث، شکستہ، طغرہ اور ماکوس وغیرہ شامل ہیں۔ وہاں جو کچھ مخطوطات اور کتابیں تلف کی گئیں جلادی گئیں ان میں کئی مضامین کا احاطہ کیا گیا تھا جن میں سائنس، منطق، طب، زراعت، خطاطی، فزکس (طبعیات)، لغت نگاری، میتھمکٹس (ریاضی)، فلکیات، علم نجوم، تاریخ، موسیقی، شاعری، تحریر و تقریر اور ثقافتی اثرات وغیرہ شامل ہیں۔ تلنگانہ اسٹیٹ آرکائیوز کا جسے سابق میں دفتر دیوانی مال و ملکی کہا جاتا تھا 1724 میں قیام عمل میں آیا۔ ابتدائی آصفجاہی دور کے 14 انتظامی دفاتر میں سے ایک جو راجہ رائے ریان کے خاندان کے ہاتھوں میں تھا حیدرآباد کی سابق نظام حکومت نے نواب میر محبوب علی خان نظام ششم کے دور حکمرانی میں اسے اپنے تخت لے لیا اس ضمن میں باضابطہ مدار المہام (وزیر اعظم) نے ایک حکمنامہ جو گزٹ باب 27 نمبر 1 مورخہ 24 جمادی 11 1314 ہجری ؍ مورخۃ 30 نومبر سال 1896 جاری کیا تھا جس کا مقصد دفتر دیوانی مال و ملکی کو باقاعدہ طور پر گورنمنٹ ریکارڈ آفس میں بدلنا تھا۔ گذرتے وقت کے ساتھ اس میں کئی تبدیلیاں آئیں اور 14 ڈسمبر 1950 کو سنٹرل ریکارڈ آفس بن گیا اور 1962 میں اسٹیٹ آرکائیوز کے محکمہ کی تنظیم نو کے بعد اور آخر میں 1992 میں ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل ہوگیا۔ آج تلنگانہ اسٹیٹ آرکائیوز ہندوستان کے سرکردہ آرکائیوز میں سے ایک ہے جو عالمی سطح پر تحقیقی برادری میں کافی مشہور ہے اس میں تقریباً 43 ملین نایاب اور تاریخی ریکارڈس کا ایک شاندار ذخیرہ موجود ہے جس میں 1406 عیسوی تک کا احاطہ کیا گیا ہے۔ آپ کی اطلاع کے لئے یہ بھی بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ ریکارڈ بہمنی، قطب شاہی، عادل شاہی اور مغل خاندانوں سے متعلق ہیں اور 1724-1948 سے لیکر انڈین یونین کے ساتھ الحاقِ حیدرآباد تک آصف جاہی ریکارڈز کی نمایاں سیریز اس میں شامل ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ تقریباً 500 برسوں تک فارسی حیدرآباد دکن میں 1887 تک سرکاری زبان رہی نتیجہ میں ان ریکارڈس میں جن زبانوں کا بہت زیادہ استعمال کیا گیا ان میں کلاسیکی فارسی اور کلاسیکی اردو نمایاں ہیں جو کہ مجموعی طور پر ریکارڈ کے تقریباً 80 فیصد پر مشتمل ہیں۔ مزید برآں کچھ ریکارڈس مراٹھی پرانے رسم الخط اور انگریزی میں پائے جاتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہیکہ آرکائیوز (آثار قدیمہ) میں فارسی، عربی اور اردو میں 672 مخطوطات کا ایک نادر اور قیمتی ذخیرہ بھی ہے اور مغل بادشاہوں اورنگزیب و شاہ جہاں سے متعلق فارسی شکستہ رسم الخط میں 1,50,000 کاغذی مخطوطات بھی موجود ہیں جہاں تک تلنگانہ اسٹیٹ آرکائیوز کا سوال ہے یہ عام لوگوں سے لے کر سرکاری اداروں، عدالتوں، ماہرین تعلیم، مورخین، اسکالرس اور صحافیوں کی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے۔ جہاں تک آرکائیوز کا تعلق ہے یہ انعامی اراضات جاگیروں، موقوفہ اور ہندو اوقافی جائیداد (انڈومنٹس) سمستھانوں، کنٹونمنٹس، تاریخی آثار، سماجی اور ثقافتی مقامات و آثار، تاریخی عمارتوں، محلات، ریلویز، ڈیمس، ندیوں، جھیلوں دیہاتوں، جنگلات، زراعت، صنعتوں، کانکنی کی کانوں، کاروبار و تجارت، دفعات و قوانین، سرکاری احکامات اور گزٹ اعلامیہ کے بارے میں قابل قدر معلومات فراہم کرتے ہیں اور تلنگانہ اسٹیٹ آرکائیوز عالمی سطح پر کافی اہمیت رکھتا ہے اور یہ اہمیت اس کی وسیع اور قابل قدر ریکارڈس کے کلکشن کے نتیجہ میں ہے۔ تلنگانہ اسٹیٹ آرائیوز کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قران وسطیٰ اور دور جدید بالخصوص حیدرآباد دکن اور تلنگانہ کی تاریخ پر تحقیق کے لئے اکثر و بیشتر ملک و بیرون ملک بشمول امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا، سنگاپور، ایران اور دوسرے مغربی ایشیائی ملکوں کے اسکالرس تلنگانہ اسٹیٹ آرکائیوز آتے رہتے ہیں۔ اس ضمن میں نور مائیکرو و فلم انٹرنیشنل سنٹر (NMIC) کا حوالہ دینا ضروری ہے، اس کے سربراہ خواجہ پیپری ہیں۔ انہوں نے اور ان کی ایجنسی نے رضاکارانہ طور پر فارسی ریکارڈ کو ڈیجٹائزیشن کرنے اس کا تحفظ کرنے اور اس کے کیٹلاگ بنانے کی پیشکش کی چنانچہ 2022 میں حکومت تلنگانہ نے نور مائیکرو انٹرنیشنل سنٹر آف گورنمنٹ آف ایران کے ساتھ یادداشت مفاہمت پر دستخط کئے۔ آج کی تاریخ تک ان لوگوں نے 17,08,000 فولیوس کی جو مختلف محکموں سے تعلق رکھتے ہیں کو ڈیجٹائز کیا اور 305000 کی مرمت کی اس طرح ایرانی ایجنسی نے تاریخی دستاویزات کو ایک طویل زندگی دی ہے۔