جدید لائف اسٹائل کے اثرات : ہر ماہ 250 شادیاں ٹوٹ رہی ہیں
آئی ٹی سٹی کا نیا بحران ، کیرئیر جیت رہا ہے ، رشتے ہار رہے ہیں
حیدرآباد 18 نومبر : ( سیاست نیوز) : ہندوستان کے آئی ٹی ہب حیدرآباد میں تیزی سے بدلتے طرز زندگی نے شادی شدہ جوڑوں کے رشتوں پر گہرا اثر ڈالنا شروع کردیا ہے ۔ نوجوان کیرئیر ، تعلیم اور آزادی کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ مگر یہی تبدیلیاں ازدواجی رشتوں میں تناؤ و فاصلوں کا بڑا سبب بن رہی ہیں ۔ ملک میں طلاق کی مجموعی شرح اب بھی صرف ایک فیصد ہے ۔ جو عالمی اوسط 2 فیصد سے کم ہے۔ لیکن نوجوان نسل میں طلاق کے بڑھتے واقعات انتہائی تشویشناک ہیں ۔ رپورٹس کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں ملک میں طلاق کے واقعات دو گنے ہوچکے ہیں ۔ بالخصوص میٹرو شہروں میں گذشتہ 10 برسوں میں 30 تا 40 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔ تلنگانہ میں طلاق کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ اس معاملے میں تلنگانہ ملک کی ٹاپ 7 ریاستوں میں شامل ہے جہاں طلاق کی شرح سب سے زیادہ ہے ۔ حیدرآباد میں صورتحال زیادہ سنگین ہے ۔ طلاق کے معاملات میں گذشتہ 5 سال میں 5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ فیملی کورٹس میں ہر ماہ تقریبا 250 کیس درج ہورہے ہیں ۔ ایک سال سے کم عرصے میں اوسطاً 158 سے زیادہ شادیاں ٹوٹ رہی ہیں ۔ تلنگانہ میں مجموعی طلاق کی شرح 6.7 فیصد ہے ۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ 25 سے 35 سال عمر کے جوڑے زیادہ طلاق حاصل کررہے ہیں ۔ حیدرآباد میں شادی کے اندرون ایک سال میاں بیوی کے جھگڑوں کے کم از کم 15 مقدمات درج ہورہے ہیں ۔ چھوٹے مسائل بڑے جھگڑوں میں تبدیل ہورہے ہیں جس کی نوبت طلاق تک پہونچ رہی ہے جس سے حیدرآباد میں طلاق کا کلچر تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ پرانی حویلی اور کوکٹ پلی کی عدالتوں میں ہزاروں مقدمات زیر التواء ہیں جو سماجی ڈھانچے میں بے چینی کی علامت ہے ۔ نوجوان جوڑوں کے رشتوں میں تلخیوں کا جائزہ لیا جائے تو کئی چونکا دینے والے حقائق سامنے آئے جو طلاق کی وجہ بن رہے ہیں ۔ نوجوان جوڑوں میں بات چیت اور ایک دوسرے سے مسائل بانٹنے کا رجحان کم ہوگیا ہے ۔ جس سے غلط فہمیاں بڑھ رہی ہیں ۔ آئی ٹی و کارپوریٹ ملازمتوں نے لائف اسٹائل بدل کر ازدواجی زندگی پر اثر ڈالا ہے ۔ 67 فیصد طلاقیں مالی تنازعات کی وجہ سے ہورہی ہیں ۔ 42 فیصد مرد قرض حاصل کرکے طلاق کے اخراجات ادا کررہے ہیں ۔ تعلیم یافتہ اور معاشی خود مختار خواتین میں شادی اور طلاق کا ڈر گھٹ گیا ہے ۔ وہ قربانیاں دینے میں سمجھوتہ کرنے تیار نہیں ہیں جس سے صبر ، برداشت اور ایڈجسٹمنٹ میں واضح کمی آئی ہے ۔ سوشیل میڈیا اور غیر ملکی کلچر بھی خاندانی رشتوں میں دراڑیں ڈال رہا ہے ۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر بروقت مداخلت کی جائے تو ہزاروں گھروں کو ٹوٹنے سے بچایا جاسکتا ہے ۔ فیملی کونسلنگ اور مشاورت سے 70 فیصد کیس حل ہوتے ہیں ۔ شادی سے پہلے کونسلنگ کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ توقعات و ذمہ داریاں واضح رہیں ۔ چھوٹے مسائل کو کورٹ کیچری لیجانے کے بجائے بات چیت سے حل کیا جائے ۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کیلئے باقاعدہ وقت نکال کر بات چیت کو اہمیت دینی چاہئے ۔ حیدرآباد جیسے تیزی سے ترقی کرنے والے شہروں میں رشتوں کو بچانے جذباتی رابطہ ، گفتگو اور صبر وہ بنیادیں ہیں جن پر مضبوط خاندان تعمیر ہوسکتے ہیں ۔۔ 2