حیدرآباد میں تعمیراتی شعبہ کے لیے کوئی خطرہ نہیں : کے ٹی آر

   

زراعت کے بعد زیادہ ملازمتیں فراہم کرنے والا تعمیری شعبہ پراپرٹی شو کا افتتاح
حیدرآباد ۔ 29 ۔ اپریل : ( سیاست نیوز ) : ریاستی وزیر بلدی نظم و نسق کے ٹی آر نے کہا کہ ریاست کی آمدنی میں اضافہ کرتے ہوئے اس کو عوام میں تقسیم کیا جارہا ہے ۔ ریاست کے کسی بھی مقام پر جائیں وہاں آپ کو 15 لاکھ روپئے سے کم ایک ایکڑ اراضی حاصل نہیں ہوگی ۔ علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے موقع پر فی کس آمدنی ایک لاکھ 24 ہزار روپئے تھی 7 سال بعد فی کس آمدنی 2.78 لاکھ روپئے تک پہونچ گئی ہے ۔ ہائی ٹیکس میں کریڈائی پراپرٹی شو کا افتتاح کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا ۔ کے ٹی آر نے کہا کہ زراعت کے بعد زیادہ ملازمت فراہم کرنے والا تعمیری شعبہ ہے ۔ ملک کی 70 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے ۔ تعمیراتی شعبہ سے آمدنی کے ذرائع میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حیدرآباد جیسے شہر ملک کی اقتصادی طاقت ہیں ۔ شہروں کی توسیع کے مطابق انفراسٹرکچر فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک میں دولت پیدا کرنے والے شہروں کی ترقی کے لیے سالانہ 10 ہزار کروڑ مختص کرنے کا چیف منسٹر کے سی آر نے وزیراعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا تھا ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے اس پر توجہ نہ دینے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ۔ کے ٹی آر نے کہا کہ بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے معاملے میں حیدرآباد تمام شہروں سے آگے ہیں ۔ شہر حیدرآباد میں ملک کے تمام ریاستوں کے شہری قیام پذیر ہے ۔ کورونا بحران کے دوران دوسری ریاستوں کے عوام یہاں طبی علاج کراچکے ہیں ۔ حیدرآباد ہیلت ، ایجوکیشن ہب میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ اقوام متحدہ نے حیدرآباد کو ( ٹری سٹی ) جھاڑوں کے شہر کے طرز پر نشاندہی کی ہے ۔ شہر کی ترقی کی بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ ستائش کررہے ہیں ۔ ماضی میں موسم گرما شروع ہوتے ہی حیدرآباد واٹر بورڈ پر خالی گھڑوں کے ساتھ احتجاجی دھرنے منظم کئے جاتے تھے ۔ حیدرآباد میں پینے کے پانی کی قلت ختم ہوگئی ہے ۔ ماضی میں جب بھی کوئی تہوار آتا تھا فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوتی ہے ۔ علحدہ تلنگانہ ریاست میں اس کا خاتمہ ہوگیا ہے ۔ ریاست میں بڑے پیمانے پر صنعتیں قائم ہورہی ہیں ۔ برقی کٹوتی کے مسائل ختم ہوگئے ہیں ۔ کھیتوں کو 24 گھنٹے برقی سربراہ کی جارہی ہے ۔ چند ریاستوں میں عمارتوں کی تعمیرات کے لیے رشوت دینا پڑتا ہے مگر تلنگانہ میں تعمیراتی منظوریوں کے لیے شفاف طریقہ کار اپنایا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے 2022 تک سب کو گھر دینے اور کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا وعدہ کیا لیکن ابھی تک اس پر کوئی عمل آوری نہیں ہوئی ۔۔ ن