ترقی کے دعوے اپنی جگہ اور حقیقت اپنی جگہ
2030 تک بلدیہ کے کھاتے کی رقومات پر بینک کا مکمل استحقاق ہوگا
… محمدمبشرالدین خرم…
حیدرآباد۔شہر حیدرآباد کو اسٹیٹ بینک آف انڈیا میں 2030 تک کیلئے رہن رکھ دیا گیا ہے! مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد نے قرض کی ادائیگی کیلئے ایس بی آئی میں Escrow کھاتہ کھلوانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے ذریعہ جی ایچ ایم سی کے تمام تر اثاثہ جات پر اسٹیٹ بینک کو مکمل استحقاق حاصل ہوجائے گا۔ ایس بی آئی ۔ جی ایچ ایم سی کے کھاتہ میں جمع رقومات سے یومیہ ایک کروڑ ‘ ماہانہ 30 کروڑ روپئے سود وصول کرلے گا اور اس کے بعد بچی ہوئی رقم سے جی ایچ ایم سی کو ترقیاتی کام اور اپنے اخراجات کی ادائیگی کی اجازت حاصل ہوگی۔ قانون حق آگہی ( آر ٹی آئی ) کے تحت سی پی ایم لیڈر ایم سرینواس کی درخواست کے جواب میں یہ انکشاف ہوا کہ جی ایچ ایم سی کو ایس بی آئی کے پاس رہن رکھوایا جاچکا ہے۔ Escrow کھاتہ کا مطلب یہ ہے کہ جو رقومات بلدیہ کے کھاتہ میں جمع ہوں گی ان سے بینک پہلے اپنا سود اور اصل قرض کی رقومات حاصل کریگی ۔ اس کے بعد بقایہ رقومات کو جی ایچ ایم سی کے استعمال کی اجازت دی جائے گی۔ جی ایچ ایم سی نے ایس آر ڈی پی ‘ سی آر ایم پی ‘ ایچ آر ڈی سی ایل کیلئے جو قرض حاصل کئے ہیں ان کی ادائیگی کیلئے یہ فیصلہ کیاگیا ہے۔ بلدیہ اور اسٹیٹ بینک کے درمیان معاہدہ کے مطابق سی آر ایم پی کے تحت جو کہ سڑکوں کی مرمت و نگہداشت کیلئے قرض حاصل کیا گیا وہ 1460 کروڑ کا ہے اس پر 7.2 فیصد سود عائد کیا جا رہاہے۔معاہدہ کئے مطابق بلدیہ حیدرآباد نے قرض کی ادائیگی کیلئے اسپیشل ڈیولپمنٹ چارجس عائد کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ ایس آر ڈی پی پراجکٹس کیلئے محصلہ 2500 کروڑ پر بلدیہ کی جانب سے فی الحال 8.65 فیصد سود ادا کیا جا رہا ہے۔اس کے علاوہ میونسپل بانڈس کے عوض 490 کروڑ پر 8.90 فیصد سود ادا کیا جا رہاہے جبکہ اضافی 100کروڑ جو حاصل کئے گئے ہیں اس کا9.90 فیصد کے اعتبار سے سود ادا کیا جا رہاہے۔ قرض اور سود کی ادائیگی کا آغاز 2023 سے ہوگا اور ماہانہ 30 کروڑ روپئے سود ادا کیا جانے لگا ہے اور 2030 تک اس قرض کی ادائیگی کا سلسلہ جاری رہے گا۔جی ایچ ایم سی عہدیداروں نے بتایا کہ تلنگانہ کی تشکیل کے بعد شہر کی ترقی کیلئے محصلہ قرضہ جات کے بعد بلدیہ کی مالی حالت انتہائی ابتر ہے اور اس سے نمٹنے جی ایچ ایم سی کے پاس اس معاہدہ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے جی ایچ ایم سی کے بقایاجات کی ادائیگی میں کوتاہی اور معلنہ بڑے پراجکٹس کیلئے جی ایچ ایم سی سے رقومات کے حصول کے سبب یہ صورتحال پیدا ہوئی ۔ ایک عہدیدار نے بتایا کہ تشکیل تلنگانہ کے بعد سے جی ایچ ایم سی کو شہر سے وصول کئے جانے والے پروفیشنل ٹیکس ‘ موٹر وہیکل ٹیکس ‘ تفریحی ٹیکس کے علاوہ دیگر محصولات میں حصہ جاری نہیں کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے جی ایچ ایم سی کی مالی حالت ابتر ہوچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق اگر فوری معاشی حالات کو بہتر نہیں بنایا گیا تو جی ایچ ایم سی کیلئے ملازمین کی تنخواہوں اور ترقیاتی کاموں کی ادائیگی بھی مشکل ہوجائے گی۔جاری ہے۔