حیدرآباد کو سیلاب سے محفوظ بنانے والےانجینئر ایم ویشویشوریا

   

ایک ایسا دور بھی تھا جب حیدرآباد فرخندہ بنیاد کو ہمیشہ سیلاب کا خطرہ لاحق رہتا تھا۔ اس ضمن میں ہم حیدرآباد کو تباہ کرنے والی طغیانی کی مثال پیش کرسکتے ہیں۔ ستمبر 1908 میں آئی اس طغیانی نے زبردست تباہی مچائی حکومت اور عوام کو زبردست جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس طغیانی کے بعد حیدرآباد کو سیلاب سے محفوظ شہر بنانے کیلئے مؤثر شہری منصوبہ بندی کی گئی۔ نکاسی آب کا غیرمعمولی انتظام کیا گیا اور دو ایسے بڑے ذخائر آب کی تعمیر عمل میں لائی گئی جو نہ صرف حیدرآباد کو سیلاب سے محفوظ رکھنے میں کارآمد ثابت ہوئے بلکہ پینے کے پانی کی ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ بھی بن گئے اور اس معاملہ میں اس دور کے مشہور و معروف اور قابل ترین انجینئر سرایم ویشیوشیوریا کا اہم کردار رہا۔ حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر نے حیدرآباد کو سیلاب سے محفوظ رکھنے کیلئے سر ایم ویشویشوریا کی خدمات حاصل کی۔ آپ کو بتادیں کہ موکشاگنڈم ویشوریا کی پیدائش 15 ستمبر 1861 کو ہوئی اور 12 یا 14 اپریل 1962 کو ان کا دیہانت ہوا۔ ہندوستانی اور عالمی انجینئرنگ برادری میں وہ MV کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ نہ صرف ایک عالمی شہرت یافتہ انجینئر تھے بلکہ ایک بہترین منتظم تھے۔ انہوں نے 1912 تا 1918 ء 6 برسوں تک ریاست میسور کے دیوان (وزیراعظم) کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دیں۔ حکومت ہند نے انہیں 1955 میں ملک کا اعلیٰ ترین اعزاز بھارت رتن عطا کیا۔ بہرحال بھارت رتن سر ایم ویشویشوریا اپنے دور کے سیلابی انتظامی نظام کے بہترین ڈیزائنر کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔ ایک انجینئر کی حیثیت سے انہوں نے دکن بھر میں بڑے بڑے ڈیمس آبی ذخائر اور پن بجلی کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کیا۔ حیدرآباد میں 1908 کے تباہ کن سیلاب کے بعد آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں بہادر کی حکومت نے سیلاب سے بچاؤ کے نظام اور شہر کیلئے نکاسی آب نظام کی تعمیر میں سر ویشویشوریا نے شہر کے بالائی علاقہ میں مناسب گنجائش کے ذخائر آب کی تعمیر کا مشورہ دیا اور واضح کیا کہ یہ آئندہ یعنی مستقبل میں سیلابوں پر قابو پانے میں مؤثر ثابت ہوں گے۔ ایم ویشویشور کی خودنوشت سوانح حیات Memoirs of my working life یقیناً ہمارے اسمارٹ سٹی پلانرس کیلئے کچھ سیکھنے کا ایک بہترین وسیلہ ہے۔ اپنی اس خودنوشت سوانح حیات میں وہ حیدرآباد اور موسیٰ ندی کے بارے میں لکھتے ہیں۔ موسیٰ ندی شہر حیدرآباد (دکن) کے بیچ سے گزرتی ہے اور موسیٰ ندی اسے دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ 28 ستمبر 1908ء کو ایک طوفانی سیلاب غیرمعمولی شدت کے ساتھ اس شہر کے درمیان سے گذرا بارش کی پیمائش شمس آباد میں جو ذخیرہ آب کے علاقہ کے اہم بارش ناپنے کے مراکز میں سے ایک تھا اس طرح ریکارڈ کی گئی 24 گھنٹوں میں 12.8 انچ اور 48 گھنٹوں میں 18.90 انچ رہی اس بارش نے شہر حیدرآباد میں گزشتہ 75 برسوں میں سب سے تباہ کن بارش کا ریکارڈ توڑ دیا۔ موسیٰ ندی کا شمالی کنارہ جنوبی کنارہ کی بہ نسبت نچلے درجہ پر تھا۔ شہر کے اوپر کا آبی خطہ چھوٹے چھوٹے تالابوں سے بھرا ہوا تھا جہاں 860 مربع میل کے خطہ میں 788 تالاب موجود تھے یعنی تقریباً ہر ایک مربع میل پر ایک تالاب موسیٰ ندی کی وادی جس نے اس سیلاب کو جنم دیا دو بارشی طاسوں پر مشتمل تھی۔ اصل موسیٰ ندی کا ذخیرہ (285 مربع میل) اور عیسیٰ ندی (525 مربع میل)۔ سیلاب کے نشانات سے یہ حساب لگایا گیا کہ پانی کے اخراج کا آغاز 110000 مکعب فٹ فی سکنڈ سے ہوا اور بڑھتے بڑھتے زیادہ سے زیادہ 425000 مکعب فٹ فی سکنڈ تک پہنچ گیا۔ ان دریا کی وادیوں میں اہم تالاب ٹوٹ گیا۔ مجموعی طور پر 221 تالابوں کے ٹوٹنے کی اطلاع ملی جن میں 182 عیسیٰ ندی کے خطہ میں اور 39 موسیٰ ندی میں تھے۔ وہ اپنی خودنوشت سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ حیدرآباد میں ان کا خاص کام شہر حیدرآباد کی تعمیر جدید میں تعاون کرنا اور مشورے دینا تھا۔ اس کے علاوہ مستقبل میں سیلابوں سے شہر حیدرآباد کو محفوظ بنانے تجاویز پیش کرکے ان کو عملی جامہ پہنانا تھا۔ ساتھ ہی حیدرآباد سٹی اور چادرگھاٹ کیلئے مکمل ڈرینج اسکیم تیار کرنا تھا۔ وہ مزید لکہھتے ہیں کہ میں 15 اپریل 1909 کو حیدرآباد پہنچا اور دو بڑی اسکیمات کے سروے کیلئے درکار ارکان عملہ کے انتخاب پر توجہ مرکوز کی۔ یہ دو اسکیمات سیلاب سے شہر کو محفوظ رکھنے کے نام سے متعلق پراجکٹ اور شہر کیلئے ایک جدید ڈرینج نظام متعارف کروانا شامل تھا۔ انہوں نے اپنی خودنوشت سوانح حیات میں 1908 کی طغیانی کے بارے میں تفصیلات فراہم کی جس کے مطابق 28 ستمبر 1908 پیر کے روز یہ طغیانی آئی اور دوپہر سے پہلے وہ اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی اور درمیانی شب کے بعد بادل پھٹ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر پانی میں ڈوب گیا۔ شہر کے گنجان آبادی والے علاقوں میں بے شمار عمارتیں منہدم ہوگئیں۔ کولسہ واڑی علاقہ میں بتایا گیا کہ تقریباً 2000 لوگ غرق ہوئے یا بہہ گئے۔ اس وقت پی ڈبلیو ڈی حیدرآباد کے پرنسپل انچارج مسٹر ٹی ڈی میکنزی M-I-C-E تھے جو مدراس پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کے ایک مشہور و معروف اور قابل عہدیدار تھے۔ ابتداء میں اس عہدیدار نے تنقیدی رویہ اختیار کیا لیکن بعد میں وہ میرے ایک اچھے دوست بن گئے اور انہوں نے ہمیشہ میری مددکی اور مجھ سے تعاون کیا۔
مسٹر ویشویشوریا ہندوستان میں برطانوی حکومت میں ایک سیول انجینئر کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دی تھیں۔ ان کی نمایاں خدمات کو دیکھتے ہوئے CIE کے طو رپر تقرر کیا گیا اور پھر KCIE کے اعزاز سے نوازا گیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ضلع چکا بالاپورا کے ایک تلگو خاندان میں ان کی پیدائش ہوئی۔ ایم سرینواس شاستری اور وینکٹالکشمی ان کے ماں باپ تھے۔ ان کے آبا و اجداد کا تعلق موجودہ آندھراپردیش کے ضلع پرکاشم سے تھا اور یہ خاندان ایم ویشویشوریا کی پیدائش سے قبل ہی میسور منتقل ہوگیا تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم بنگلور میں حاصل کی۔ یونیورسٹی آف مدراس سے بی ایس سی کیا اور کالج آف انجینئرنگ پونہ سے انجینئرنگ کی تکمیل کی اور دکن کلب کے رکن بنے اور اس کے پہلے سکریٹری بھی تھے۔