سماج کو بانٹنے کی کوششوں پر عوام میں اندیشے، ترقی اور استحکام کیلئے ٹی آر ایس کی تائید ضروری
حیدرآباد۔ بی جے پی نے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کی انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے حیدرآباد کے پُرامن شہریوں کیلئے چیلنج پیدا کردیا ہے۔ گذشتہ سات برسوں میں علحدہ تلنگانہ میں نہ صرف حیدرآباد بلکہ دیگر اضلاع میں پُرامن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول تھا۔ اس مدت میں بی جے پی اور سنگھ پریوار نے اضلاع میں تہواروں کے موقع پر صورتحال بگاڑنے کی کوشش کی لیکن ٹی آر ایس حکومت نے ان سرگرمیوں کو آہنی پنجہ سے کچل دیا تھا جسکے نتیجہ میں فرقہ پرست طاقتیں تلنگانہ میں اپنے قدم جمانے میں ناکام ثابت ہوئیں۔ دوباک کے ضمنی چناؤ میں بی جے پی کی غیر متوقع کامیابی کے بعد بی جے پی اور اس کی ہم خیال جماعتوں کے حوصلے بلند ہوچکے ہیں اور اس نے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کے ساتھ گریٹر حیدرآباد کی انتخابی مہم کو سماج میں مذہب کی بنیاد پر تفریق کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا ۔ مہم کے دوران بی جے پی قائدین کے اشتعال انگیز بیانات عوام کے ذہنوں میں مختلف اندیشے پیدا کررہے ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے بی جے پی قائدین کو انتخابی ضابطہ اخلاق کا کوئی پاس و لحاظ نہیں ہے اور وہ ترقی کے بجائے نفرت کے ایجنڈہ پر دلیری سے عمل پیرا ہیں۔ حیدرآباد کے بلدی انتخاب کو قومی الیکشن کی طرح قومی قائدین کو مدعو کرکے پُرامن ماحول کو بگاڑنے کی تیاری کرلی گئی ہے۔ ان حالات میں شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نفرت کے ایجنڈہ کو روکنے برسراقتدار ٹی آر ایس کی تائید کریں کیونکہ ٹی آر ایس واحد پارٹی ہے جو بی جے پی کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ ٹی آر ایس نے گذشتہ سات برسوں میں اپنی کارکردگی کے ذریعہ یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ترقی اور امن کو یقینی بناسکتی ہے۔ حیدرآباد میں ترقی اور خوشحالی کے ماحول کو برقرار رکھتے ہوئے عوام کا اعتماد حاصل کیا۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کیلئے شہرت رکھنے والے حیدرآباد کو فرقہ پرستوںکی بری نظر سے بچانے سیکولر ذہنیت کے حامل رائے دہندوں کو متحرک ہونا پڑیگا۔
انتخابات میں رائے دہی کے فیصد میں اضافہ کے ذریعہ بی جے پی کے عزائم کو شکست دی جاسکتی ہے۔ شہر کو امن کا شہر برقرار رکھنے کے خواہاں ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ووٹ کا استعمال ذمہ داری سمجھ کر کرے۔ گذشتہ انتخابات میں حیدرآباد میں رائے دہی کا فیصد 50 تا55 ریکارڈ کیا گیا جو رائے دہی سے عوام کی عدم توجہی کا واضح ثبوت ہے۔ اب جبکہ فرقہ پرست اور امن کی دشمن طاقتوں نے سر اُبھارنے کی کوشش کی ہے ایسے میں سیکولر طاقتوں کو مضبوط کرنے عوام کو بڑھ چڑھ کر رائے دہی میں حصہ لینا ہوگا۔ بی جے پی قائدین نے انتخابی مہم میں نہ صرف پرانے شہر کے حساس علاقوں کو نشانہ بنایا بلکہ نئے شہر کے ایسے علاقے جہاں فرقہ پرستی کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا وہاں بھی ماحول کو بگاڑنے کوشاں دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومت نے ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کیلئے پولیس کو کھلی چھوٹ دی ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی اشتعال انگیز تقاریر کو روکنے ہدایات جاری کی ہیں۔ انتخابات میں بی جے پی ترقی کے بجائے سماج کو توڑنے کی راہ پر گامزن دکھائی دے رہی۔ برسراقتدار ٹی آر ایس نے ترقی اور امن کے ایجنڈہ کے ساتھ انتخابی مہم میں شدت پیدا کی ہے اور ورکنگ پریسیڈنٹ کے ٹی راما راؤ مہم کی قیادت کررہے ہیں۔ شہر کو فرقہ پرستی سے بچانے ٹی آر ایس کی کامیابی ضروری ہے۔