رام پنیانی
حیدرآباد کی نوابی ریاست کا 17 ستمبر 1948 ء کو ہندوستان میں انضمام عمل میں آیا اور یہ انضمام پولیس ایکشن کے ذریعہ کیا گیا اور حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ انضمام ہندوستانی فوج نے کیا جسے آپریشن پولو کہا جاتا ہے جو جنرل چوہدری کی قیادت میں کیا گیا۔ اس آپریشن کی یاد میں بی جے پی نے اس دن کو حیدرآباد لبریشن ڈے کے طور پر منانا شروع کیا (بی جے پی جان بوجھ کر 17 ستمبر کو حیدرآباد کی آزادی کا دن مناتی ہے) جبکہ کانگریس کی زیرقیادت حکومت تلنگانہ نے اسے پرجا پالنا ڈے (ظہور جمہوریت کے دن) کے طور پر منایا۔ بی جے پی لیڈر اور مرکزی وزیر کشن ریڈی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے حیدرآباد لبریشن ڈے نہ منانا اُن لوگوں کی توہین ہے جنھوں نے انڈین یونین میں حیدرآباد کے انضمام کے دوران اپنی زندگیوں کی قربانیاں دی ہیں۔ بہرحال دوسرے ایسے بھی لوگ ہیں جو اسے نہرو اور پٹیل کا اسلاموفوبیا قرار دیا ہے جو ہندوستان میں ایک مسلم نوابی ریاست کے انضمام اس کے الحاق کا باعث بنا۔ ان میں اکثر دلائل یکطرفہ یا متعصبانہ ہے۔ کیا ایک نوابی ریاست جس کی حکمرانی ایک مسلم بادشاہ کرتا ہو ایک مسلم اسٹیٹ (حیدرآباد) کہلاسکتی ہے؟ جس کی آبادی کی اکثریت ہندو تھی۔ کیا ایک مسلم اکثریتی ریاست جس کا راجہ ہندو ہو (کشمیر) اسے ایک ہندو ریاست کہا جاسکتا ہے؟ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ بعض اسکالرس اسے مذہب کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ حقیقت میں ایک طرف اہم عنصر یا پہلو جغرافیائی ہے اور دوسری طرف یہ زمیندارانہ و جاگیردارانہ نظام سے جمہوریت کی طرف منتقلی بھی ہے۔ کشمیر میں اس میں سے کتنا کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے یہ مشکوک ہے کیونکہ اس خطہ کے عوامل پڑوسی ملک پاکستان کے عزائم سے متاثر تھے۔ پاکستان اسے حقیقت میں ایک مسلم ریاست بنانا چاہتا تھا اور مسلم اکثریتی کشمیر کو جناح کے دو قومی نظریہ کے مطابق پاکستان میں ضم ہوتے دیکھنے کا خواہاں تھا۔ اگر ہم دو قومی نظریہ کی بات کرتے ہیں تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ اصل میں یہ نظریہ ساورکر نے پیش کیا تھا۔ تو نہرو نے کشمیر کے ہندوستان میں انضمام یا الحاق سے دلچسپی کیوں لی؟ کیا یہ محض جغرافیائی توسیع پسندی تھی تاکہ جاگیردارانہ بادشاہت کے خلاف جمہوری تحریک کی تائید و حمایت کی جاسکے اور جاگیردارانہ نظام و بادشاہت کا رُخ جمہوریت کی جانب موڑا جائے۔ آپ کی اطلاع کے لئے یہاں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شیخ عبداللہ نے اپنے تمام جمہوری عزائم کے ساتھ مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کیا اور سیکولر اقدار کے حق میں اور اس کے تحفظ میں پوری قوت کے ساتھ کھڑے رہے۔ انھوں نے گاندھی اور نہرو کی طرف سیکولر ۔ جمہوری اقدار کیلئے دیکھا لیکن مسئلہ اس وقت سنگین رُخ اختیار کرگیا اور صورتحال اُس وقت خراب ہوئی جب پاکستان کے حملہ کو قبائل کا حملہ قرار دیا گیا حالانکہ وہ حملہ پاکستانی فوج کی قیادت میں کیا گیا تھا جسے درپردہ امریکہ ۔ برطانیہ کی حمایت حاصل تھی۔ اس کے بعد خود مختاری اور اقتدار اعلیٰ کا مسئلہ آتا ہے۔ بادشاہوں اور کئی دوسروں نے بادشاہوں کے مذہب کے ذریعہ سلطنتوں پر لیبل چسپاں کئے ہیں جبکہ ہندوستانی قوم پرستوں کا خیال تھا کہ خود مختاری اور اقتدار اعلیٰ و حاکمیت عوام کی ہے بادشاہوں کی نہیں۔ اس پس منظر میں حیدرآباد کے ہندوستان میں انضمام کے پیچیدہ مسئلہ کو دیکھنا ہوگا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ جیسے ہی ہندوستان نے انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کی 600 سے زائد دیسی یا نوابی ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ یا تو پاکستان یا پھر ہندوستان کے ساتھ الحاق کریں یا آزاد رہیں۔ ایسی سلطنتیں اور دیسی ریاستیں جنھیں انگریز سامراج کے دور میں کچھ خود مختاری حاصل تھی، ایک عجیب قسم کی صورتحال باالفاظ دیگر ایک مخمصے کا سامنا کررہی تھیں لیکن ان ریاستوں میں سے اکثر پاکستان میں اور نہ ہی ہندوستان میں ضم ہونے کی خواہاں تھیں بلکہ وہ آزاد رہنا چاہتی تھیں۔ انھیں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مشورہ دیا تھا کہ وہ پڑوسی ملک کے ساتھ الحاق کو ترجیح دیں۔ چونکہ سردار پٹیل زیادہ تر انضمام کی نگرانی کررہے تھے چنانچہ انھوں نے دیسی ریاستوں کو صرف دفاع، مواصلات اور خارجی اُمور چھوڑ کر دوسرے معاملات میں نوابوں اور راجہ رجواڑوں کو خود مختاری دینے کا وعدہ کیا۔ اس کے عوض انھیں اپنی بڑی جائیدادیں اور بڑے پیمانے پر اپنی دولت رکھنے کا حق دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زیادہ تر شاہی ریاستیں ہندوستان میں ضم ہوگئیں۔ ٹراونکور جس پر ایک ہندو راجہ کی حکمرانی تھی، کافی ہچکچاہٹ کے بعد ہندوستان کا حصہ بننے سے اتفاق کیا۔ کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے ہندوستان میں ضم ہونے سے انکار کردیا۔ ساتھ ہی حیدرآباد کے نظام نے ہندوستان کے ساتھ الحاق سے اتفاق نہیں کیا۔ جیسا کہ سطور بالا میں اشارہ دیا گیا کہ ہندوستانی قائدین یہ سمجھتے تھے کہ حاکمیت عوام کی ہے بادشاہوں کی نہیں۔ اس کے علاوہ ان میں سے اکثر بادشاہ راجہ رجواڑے تاج برطانیہ کے وفادار تھے اور پرتعیش زندگیاں گزار رہے تھے۔ آپ کو بتادیں کہ جونا گڑھ کو فوجی کارروائی کے ذریعہ ہندوستان میں ضم کیا گیا اور اس کے بعد منعقد کئے گئے استصواب عامہ میں ہندوستان کے ساتھ اس کے الحاق کی توثیق کی گئی۔
حیدرآباد کے نظام دراصل ایک بڑی اور دولت مند ریاست پر حکمرانی کررہے تھے۔ وہ ہندوستان میں ضم ہونے کی بجائے آزاد رہنا چاہتے تھے یا پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے تھے (یہ حقیقت سے بعید ہے) پاکستان سے الحاق کا خیال مذہبی بنیادوں پر نہیں بلکہ محمد علی جناح کے اس وعدہ کی بنیاد پر تھا جس میں محمد علی جناح نے وعدہ کیا تھا کہ نظام کے حقوق سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی، ان کے حقوق کو سلب نہیں کیا جائے گا۔ دوسری طرف ہندوستان کئی ایک وجوہات کی بناء پر حیدرآباد کو ہندوستان میں خود کو ضم کرنے کا خواہاں تھا۔ ان وجوہات میں اسلاموفوبیا کوئی ایک وجہ نہیں تھی بلکہ اس کی سب سے اہم وجہ ریاست حیدرآباد کا جغرافیائی محل وقوع تھا۔ حیدرآباد ہندوستان کے وسط یا مرکز میں پایا جاتا ہے یہ ایک مکمل طور پر خشکی سے گھری ہوئی خود مختار ریاست یا دیسی ریاست تھی جو پاکستان کا حصہ ہوتی تو ایک دائمی مسئلہ کا ذریعہ بن جاتی۔ نہرو ۔ پٹیل کی جوڑی کے لئے یہی نکتہ بنیادی غور و خوض کا باعث بنا۔ چنانچہ قطعی یا حتمی فیصلہ ہونے تک نظام دکن کے ساتھ معاہدہ تعطل (نومبر 1947) کیا گیا اور اس معاہدہ پر دستخط بھی کئے گئے۔ اس کے پیچھے یہ خیال کارفرما تھا کہ اس مدت کو حیدرآباد انتظامیہ Administration کو جمہوری بنانے کے لئے استعمال کیا جائے تاکہ انضمام کی بات چیت آسان ہوجائے۔ دوسری طرف نظام نے اس مدت (وقت کو) اپنی فوج مستحکم کرنے کے لئے استعمال کیا۔ انھیں بے قاعدہ فوج کی تعداد میں اضافہ کیا جسے رضاکار کہا جاتا تھا۔ نظام دکن کی فوج کی قیادت میجر جنرل ایس اے العیدروس کررہے تھے۔ وہ حیدرآباد اسٹیٹ فورس کے عرب کمانڈر اِن چیف تھے۔ اسی دوران کانگریس ریاستی انتظامیہ کو جمہوری بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ستیہ گرہ شروع کی جس کے نتیجہ میں ان 20 ہزار ستیہ گروہوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ہندوؤں پر ریاستی جبر اور رضاکاروں کے مظالم کی وجہ سے بہت سارے لوگوں نے ریاست سے راہ فرار اختیار کی (واضح رہے کہ اکثر رضاکاروں کو بدنام کیا گیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ رضاکاروں کے ڈریس میں اشرار ہندوؤں پر مظالم کرتے تھے اور اس کا سارا الزام رضاکاروں کے سر تھوپ دیا جاتا تھا)۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ کمیونسٹوں نے بھی اراضیات کی تقسیم کے لئے نہ صرف زمینداروں کے خلاف دلموں (گروپوں) کا آغاز کیا بلکہ رضاکاروں کے مظالم سے لوگوں کے تحفظ کی خاطر ان دلموں کو متحرک کیا۔ نظام مذاکرات کو ٹالتے جارہے تھے اور رضاکار مزید خطرناک ہوتے جارہے تھے (اس میں بھی زیادہ تر دروغ گوئی سے کام لیا گیا) ایک اور اہم بات یہ ہے کہ نظام مخالف جدوجہد کو کچھ مقامی لوگوں اور پورے ملک کے مسلمانوں کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل تھی۔ وہی ذریعہ ہمیں بتاتا ہے کہ پٹیل نے بڑی مسرت کے ساتھ حیدرآباد کے سوال پر سہروردی کو لکھا حیدرآباد کے سوال پر انڈین یونین کے مسلمان ہماری طرف کھل کر سامنے آئے ہیں اور اس نے یقینا ملک میں اچھا تاثر پیدا کیا۔ اسی پس منظر میں فوجی کارروائی شروع کی گئی جس میں سندر لال رپورٹ کے مطابق تقریباً 40 ہزار جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔