حیدرآباد کے ماونٹ میرسی اسکول کا تعارف، اسکول کے بانی کے زبانی

   

حیدرآباد: ارشد پیرزادہ کے سعودی عرب میں کامیاب کیریئر نے انہیں اپنے اہل خانہ کی مدد کرنے کے لئے نہیں بلکہ تعلیم کے اقدامات کے ذریعے معاشرے کی خدمت کرنے کے قابل بنا دیا ہے۔

چاہے وہ الجماع آٹوموٹو کمپنی میں جنرل موٹرز کے مختلف نمائندوں سے ہنر سیکھ رہا ہو یا ہندوستانی تارکین وطن سے سیکھ رہا ہو ، پیرزادہ ارشد صاحب کی محنت کا صلہ مل رہا ہے۔

ارشد صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے کہ میں اپنے ہی خاندان کی معاشی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے سعودی عرب گیا تھا۔ لیکن کیا کسی کو وہاں رکنا چاہئے؟ کیا اسے ان لوگوں کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئے جو انہوں نے اپنے شہر میں پیچھے چھوڑ دیا ہے ، جو ایک طویل عرصے سے معاشی بحران کی لپیٹ میں ہیں؟

جب کوئی ان سے اپنی حالات زندگی اور اسکے اتار چھڑاو کے بارے میں پوچھتا ہے تو اپنے بچپن کا واقعہ سناتے ہیں جب انکے دادا جو رائچور کے کلکٹر تھے اور وہ اسوقت نظام دکن کے حیدرآباد کا ایک حصہ تھا۔ وہ ہمارے لیے امن اور خوشحالی کے دن تھے۔ مگر 1948 کے پولیس ایکشن کے بعد سب کچھ بدل دیا گیا۔

YouTube video

اس کمیونٹی کے ایک چھوٹے سے حصے کی تعلیم کے لئے اپنے سفر کی شروعات کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ”میرے بچے اچھی طرح آباد ہیں۔ دوسری طرف میری اہلیہ قرآن اور عربی کی ایک استاد ہیں ، ایک کتاب کی مصنف ہیں اور اپنے طور پر ایک کاروباری ہیں۔ وہ زیادہ تر دلہن کا سامان ڈیزائن کرتی اور فروخت کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے اسکول کے ساتھ میں خود فعال رکن کی حیثیت سے جڑا ہوں ۔

انہوں نے کہا کہ اس اسکول کی بنیاد 1999 میں رکھی گئی، ابتدا میں کافی قربانی دینی پڑی، بہت سارے چیلنجر کا سامنا کرنا پڑا،پہلے صرف 56 طلباء نے اس اسکول میں داخلہ لیا، اور انکے لیے بہتر بہتر انتظامات کیے گئے اور اب 850 طلباء زیر تعلیم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا تعلیمی تناسب کتنا ہے ہم سب جانتے ہیں، اور انکے وسائل محدود ہونے کی وجہ سے انہیں اعلیٰ تعلیم کےلیے نہیں بھیجا جاتا بلکہ انہیں رد کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم طلباء کو ہر اعتبار سے تیار کرتے ہیں اور انہیں کھیل وغیرہ کے مقابلوں کےلیے بھی تیار کرتے ہیں۔