حیدرآباد کے نومنتخب میئر اور ڈپٹی میئر کو پہلا تلخ تجربہ

,

   

نئی گاڑیوں کی فراہمی سے حکام کا انکار ، کارپوریشن کا کمزور مالی موقف اہم وجہ
حیدرآباد : جی ایچ ایم سی میں معاشی بحران کا پہلا شکار نومنتخب میئر اور ڈپٹی میئر ہوئے ۔ کارپوریشن نے میئر اور ڈپٹی میئر کیلئے نئی گاڑی فراہم کرنے سے انکار کردیا اور سابقہ میئر اور ڈپٹی میئر کی گاڑیوں کو استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔ واضح رہے کہ کارپوریشن ان دنوں مالیاتی بحران سے گذر رہا ہے اور ملازمین کو جنوری کی تنخواہ ابھی تک ادا نہیں کی گئی۔ نومنتخب میئر جی وجئے لکشمی اور ڈپٹی میئر ایم سری لتا ریڈی نے انتخاب کے بعد خواہش کی کہ انہیں نئی گاڑیاں فراہم کی جائیں۔ کارپوریشن جو ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے موقف میں نہیں ہے، اس نے نئی گاڑیوں کی خریدی سے معذرت کرلی اور سابق میئر بی رام موہن اور سابق ڈپٹی میئر بابا فصیح الدین کی جانب سے استعمال کردہ گاڑیوں کو حوالے کردیا۔ نومنتخب میئر اور ڈپٹی میئر کیلئے کارپوریشن میں یہ پہلا تلخ تجربہ ہے۔ کارپوریشن نے جونیر عہدیداروں کو ہدایت دی ہے کہ پراپرٹی ٹیکس، ٹریڈ لائسنس، ٹاؤن پلاننگ فیس اور دیگر ذرائع آمدنی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ٹیکس کلیکشن میں اضافہ کرے۔ ملازمین کو ہر ماہ کی 10 تاریخ سے قبل تنخواہ ادا کردی جاتی ہے لیکن اس مرتبہ یہ ممکن نہ ہوسکا۔ بتایا جاتا ہے کہ آمدنی میں اضافہ کے بعد ہی کارپوریشن تنخواہیں جاری کرے گا۔ کارپوریشن نے موجودہ صورتحال میں حکومت سے مداخلت کی اپیل کی لیکن ریاستی حکومت خود اس موقف میں نہیں ہے کہ وہ کارپوریشن کی مدد کرسکے۔ حکومت نے کارپوریشن سے کہا ہے کہ وہ اپنے وسائل خود وسیع کرے اور حکومت کی امداد پر انحصار کرنا چھوڑ دے۔ گزشتہ تین برسوں میں کارپوریشن نے عہدیداروں کے چیمبرس کی تزئین نو اور موبائل فون بلس کی ادائیگی پر 20 کروڑ روپئے خرچ کئے ہیں۔ کارپوریشن نے غیرضروری اخراجات کو کم کرنے کی مہم شروع کی ہے اور اس مہم کا اثر نومنتخب میئر اور ڈپٹی میئر اور اعلیٰ عہدیدار کو حاصل کردہ سہولتوں پر پڑ سکتا ہے۔