حیدرآباد کے 82 فیصد آبی صارفین کے پاس میٹرس نہیں

   

سی اے جی رپورٹ میں انکشاف، مفت پانی کی سربراہی اسکیم کے آغاز میں تاخیر کا امکان
حیدرآباد۔ گریٹر حیدرآباد میں حکومت مفت پینے کے پانی کی سربراہی اسکیم پر عمل آوری کی تیاری کررہی ہے تو دوسری طرف سی اے جی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ شہر کے 82 فیصد آبی صارفین کے پاس واٹر میٹرس نہیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق واٹر بورڈ اور حکومت کیلئے نئی اسکیم پر عمل آوری بڑا چیالنج ہے۔ اسمبلی میں پیش رپورٹ میں 2013 تا 2018 تک کی صورتحال کا احاطہ کیا گیا۔ حکومت نے گزشتہ تین برسوں سے واٹر میٹرس کی تنصیب کو لازمی قرار دیا ہے۔ جی ایچ ایم سی انتخابات میں حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ ہر گھر کو 20 ہزار لیٹر ماہانہ پانی مفت سربراہ کیا جائیگا۔ اسکیم سے استفادہ کیلئے میٹر کی تنصیب و اکاؤنٹ کو آدھار سے مربوط کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔ سی اے جی رپورٹ نے جو انکشافات کئے ہیں اس سے اسکیم پر عمل آوری کے بارے میں شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانی کی سربراہی کے بارے میں واٹر بورڈ کے اعداد و شمار حقائق پر مبنی نہیں ہیں۔ میٹرس کی عدم تنصیب سے بورڈ کو 1209 کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ واٹر بورڈ روزانہ ہر شخص کیلئے 150 لیٹر پانی سربراہ کرنے پابند ہیں لیکن حیدرآباد میں اوسطاً 71 لیٹر پانی سربراہ کیا جارہا ہے۔ واٹر بورڈ کو میٹرس کی عدم تنصیب کے نتیجہ میں سی اے جی رپورٹ کے مطابق بھاری نقصان ہوا ہے۔ سی اے جی نے حیدرآباد میٹرو واٹر ورکس اور تلنگانہ سدرن پاور ڈسٹریبیوشن کمپنی میں تال میل کی کمی کی شکایت کی۔ کہا گیا کہ تال میل کی کمی سے 5.17 کروڑ کا نقصان ہوا۔ کرشنا سے پانی سربراہی اسکیم پر 1670 کروڑ خرچ کئے گئے۔ آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسکیم کی منظوری کے فوری بعد برقی ضرورت سے ڈسٹریبیوشن کمپنی کو اطلاع نہیں دی گئی۔