حیدرآباد: 5 سال میں کچھ بھی تبدیلی نہیں

   

تھوڑی سی بارش سے جل تھل
پانی کی نکاسی کا کوئی نظام نہیں
نالوں پر ناجائزقبضے برقرار

محمد نعیم وجاہت


شہر حیدرآباد میں اونچی اونچی اور آسمان چھوتی عمارتوں کا تعمیر ہونا یا سرمایہ کاری میں زبردست اضافہ، شہر کے ترقی کی ضمانت یا دلیل ہرگز نہیں ہوسکتی بلکہ شہریوں کو بنیادی سہولتوں کے ساتھ محفوظ اور پرسکون ماحول کی فراہمی ، شہر کی ترقی کو ظاہر کرتی ہے لیکن چند منٹوں کی بارش کی صورت میں شہریوں کو گھروں میں رہنے کی تلقین کرنا محفوظ ماحول کی فراہمی میں ناکامی کی بدترین مثال ہے۔
’’حیدرآباد نگینہ۔ اندر مٹی اوپر چونا‘‘
یہ مثال زمانہ دراز سے سننے آرہے ہیں لیکن کبھی اس بات کا احساس نہیں ہوا تھا کہ بزرگوں نے ایسی کونسی چیز دیکھی تھی جس کی وجہ سے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کے متعلق ایسی مثال کہی جارہی ہے لیکن پچھلے چند برسوں سے شہر حیدرآباد میں بنیادی سہولتوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہونے لگی ہے کہ شہر واقعی اُس مثال کے مصداق بن چکا ہے اور اس کیلئے حکومت عوام کو اور عوام حکومت کو اور مختلف محکمہ جات لینڈ گرابرس کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ شہر حیدرآباد تھوڑی سی بارش کو سنبھالنے کے موقف میں نہیں ہے۔ سارا شہر جل تھل میں تبدیل ہورہا ہے اور کئی علاقے جھیل میں تبدیل ہورہے ہیں۔ ہم نے 5 سال قبل شہر کی بارش اور اس کی صورتحال پر ایک آرٹیکل لکھا تھا جس سے قارئین بخوبی واقف ہیں۔ ان 5 سال کے دوران شہر کی توسیع ہوئی ہے۔ عالیشان عمارتیں تعمیر ہوئی ہیں۔ کئی بڑے بڑے فلائی اوورس اور سڑکیں تعمیر ہوئی ہیں لیکن ڈرینج نظام کو باقاعدہ بنانے اور بارش کے پانی کے بہاؤ کو یقینی بنانے اور نالوں کی توسیع کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ اگر کئے گئے ہوتے تو جی ایچ ایم سی کو تھوڑی سی بارش سے عوام کو گھروں سے باہر نہ نکلنے کی ہدایت نہیں دینی پڑتی۔ حکومت کی جانب سے سڑکوں پر پانی کی نکاسی کو یقینی بنانے کیلئے ہزاروں کروڑ روپئے خرچ کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ اگر واقعی حکومت نے اپنی بھاری رقومات خرچ کی ہیں تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ یہ بتانے سے حکومت قاصر ہے۔ ریاست میں کالیشورم پراجیکٹ کے ذریعہ اراضیات کو سیراب کرنے کے علاوہ نئے پراجیکٹس تعمیر کرنے والی حکومت کرنے والی حکومت ریاست تلنگانہ کے صدر حیدرآباد میں پانی کے بہاؤ کو یقینی بنانے سے قاصر ہے۔ گزشتہ سال شہر حیدرآباد میں بارش و سیلاب سے ابتر صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ بڑے پیمانے پر جانی مالی نقصان ہوا تھا۔حکومت نے اندرون ایک سال حیدرآباد کا سیوریج نظام بالخصوص بارش کے پانی کے بہاؤ کو بہتر بنانے کا اعلان کیا تھا۔ نالوں پر ناجائز قبضوں کو برخاست کرنے کا وعدہ کیا تھا اور ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی جس کی حکومت کو رپورٹ بھی وصول ہوچکی ہے۔ روایت کے مطابق دوسری رپورٹس کی طرح یہ رپورٹ بھی کوڑے دان کی نذر ہوگئی ہے۔ اسی سال بارش اور حیدرآباد میں عوامی مسائل پر نوجوان حرکیاتی وزیر بلدی نظم و نسق کے ٹی آر کا ردعمل قابل اعتراض ہے جس میں انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کیلئے وہ تنہا ذمہ دار نہیں ہیں۔ ریاست میں 7 سال سے ٹی آر ایس کی حکومت ہے جو بھی اچھا کام ہوتا ہے تو ٹی آر ایس کے قائدین اس کا سہرا چیف منسٹر کے سَر باندھ دیتے ہیں۔ اگر کچھ غلط ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری سابق حکمرانوں پر تھوپ دی جاتی ہے۔ کے ٹی آر کی جانب سے گریٹر حیدرآباد کی ترقی پر 69 ہزار کروڑ روپئے خرچ کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بھاری رقم خرچ کرنے کے باوجود بارش سے شہر حیدرآباد میں جو مسائل پیدا ہورہے ہیں، اس کا خاتمہ کیوں نہیں ہوا ہے۔ کہاں غفلت ہورہی ہے، نقائص کہاں ہیں۔ منصوبہ بندی میں کہاں گڑبڑ ہے جس کا جائزہ لینے ، غلطیوں کو درست کرنا بحیثیت وزیر بلدی نظم و نسق کے ٹی آر کی ذمہ داری ہے۔ ایک سال کے دوران نالوں کی مناسب انداز میں توسیع نہیں ہوئی اور نالوں پر ناجائز قبضوں کو برخاست بھی نہیں کیا گیا۔ آج بھی پرانے شہر اور مضافاتی علاقوں میں ایسی کئی بستیاں اور کالونیاں ہیںجہاں کے عوام پانی میں محصور ہیں، سرسلہ اسمبلی حلقہ کی نمائندگی کرنے والے کے ٹی آر نے حالیہ بارش سے سرسلہ پانی میں ڈوب جانے پر راحت کاری کے کاموں کی انجام دہی کیلئے این ڈی آر ایف کی ٹیموں کو سرسلہ روانہ کیا۔ دوسرے دن وہ خود پہونچ گئے۔ اعلیٰ عہدیداروں کا اجلاس طلب کرتے ہوئے نقصانات کا جائزہ لیا۔ متاثرہ عوام سے ملاقات کی انہیں نقصانات کا معاوضہ دلانے کا تیقن دیا۔ ریاستی وزیر فینانس ٹی ہریش راؤ نے بارش سے اپنے اسمبلی حلقہ سدی پیٹ میں جن مکانات کو نقصان پہونچا ہے، ان کے متاثرین میں مالی امداد تقسیم کی۔ شہر حیدرآباد کے علاوہ ریاست کے کئی اضلاع میں بارش سے نقصانات ہوئے ہیں۔ ریاستی وزراء ہونے کے باوجود کے ٹی آر اور ہریش راؤ اپنے اپنے حلقوں تک محدود رہے۔ شہر حیدرآباد اور دیگر اضلاع کا کوئی دورہ نہیں کیا۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ریاست میں تقریباً 10 دن بارش ہوئی ہے۔ شہر جھیل میں تبدیل ہوگیا۔ کئی گاؤوں میں پانی داخل ہوگیا ، عوام کا ایک دوسرے سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ بارش کے پانی میں بہنے اور بجلی گرنے سے 15 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے، 2 لاکھ ایکر اراضی پر فصلوں کو نقصان پہونچا۔ 2226.63 کیلومیٹر سڑکوں کو نقصان پہونچا، 1,000 سے زائد برقی ٹرانسفارمرس پانی میں ڈوب گئے۔ ریاست میں عوام پریشان تھے۔ چیف منسٹر نے اس دوران ہفتہ بھر دہلی میں قیام کیا جس پر مختلف گوشوں سے اعتراضات کئے جارہے ہیں۔