خاتون مظاہرین نے ملک کو متحد رکھنے اور آئین کو بچانے کا پیغام دیا

,

   

نئی دہلی،14جنوری (سیاست ڈاٹ کام) قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین کی خواتین نے گزشتہ 16دسمبر سے سریتاوہار کالند کنج روڈ پر اپنا مظاہرہ شروع کیا تھا۔ اس وقت یہ خاتون جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ پر پولیس کی وحشیانہ کارروائی کے خلاف مورچہ سنبھالا تھا جو اس وقت پورے ملک میں پھیل گیا ہے ۔ مہاراشٹر کے مالیگاؤں، بہار میں گیا، پٹنہ، ارریہ، مدھوبنی اور دیگر علاقوں میں سمیت الہ آباد میں منصور علی پارک (روشن باغ) اور دہلی کے سلیم پور، ذاکر نگر ڈھلان پر خواتین مستقل مظاہرہ کر رہی ہیں۔اس کے علاوہ راجستھان کے کوٹہ شہر میں بڑی تعداد میں خواتین نے جلوس نکال کر اس قانون کی مخالفت کی ہے ۔خواتین باغ خواتین کا مظاہرہ کا تذکرہ نہ صرف ہندوستان کے کونے کونے میں ہورہا ہے بلکہ پوری دنیا میں اور دنیا کی ہر یونیورسٹی میں اس کا ذکر ہورہا ہے اوران کی حمایت میں مظاہرہ کئے جانے کی خبریں بھی موصول ہورہی ہیں۔ ایک مہینہ پورا ہونے والے شاہین باغ خواتین مظاہرہ میں کیا پڑھی لکھی کیا ان پڑھ خواتین حصہ لے رہی ہیں۔ ایک 20دن کے بچہ سے لیکر 90 سالہ خواتین بھی شریک ہیں۔ سب کا کہنا ہے کہ ہم آئین کو بچانے کے لئے آئے ہیں۔ جوں جوں رات جوان ہوتی ہیں خواتین اور دیگر مظاہرین کی تعدد بڑھتی جاتی ہے ۔ پوری دہلی ہی نہیں بلکہ پورے ملک سے لوگ آرہے ہیں اور شاہین باغ خواتین کے جذبے کو سلام کرنے کے ساتھ ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ شاہین باغ میں اتوار کو لاکھوں مرد و خواتین نے جمع ہوکر یہ دکھادیا کہ وہ لوگ کتنے متحد ہیں اور اسی کے ساتھ شاہین باغ مظاہرین اسکوائر پر پنڈتوں نے ہون، سکھوں نے کیرتن، بائبل اور قرآن کی تلاوت کرکے صلح کل کا پیغام دے رہے ہیں۔ شاہین باغ مظاہرین کی حمایت میں ہون بھی کیا گیا اور مسلم خواتین نے ٹیکے بھی لگائے ۔ یہ اس بات ثبوت ہے کہ اس مظاہرہ میں صرف ایک فرقہ کے لوگ نہیں بلکہ ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی سب شامل ہیں۔ شاہین باغ خواتین مظاہرہ کی خاص بات ہے کہ یہ کسی منظم کے بغیر ہے ،

اس کے پیچھے کوئی تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی پارٹی ہے ۔ اس کے باوجود یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے ۔ شاہین باغ اور دور دراز سے لوگ کھانے کا پیکٹ گاڑیوں میں بھر کر لاتے ہیں یا خود تفسیم کرتے ہیں یا رضا کار کے حوالہ کردیتے ہیں۔ کوئی پانی کی بوتلیں لیکر آتا ہے تو کوئی سموسہ لیکر آتا ہے تو کوئی کھانے کی کوئی اور چیز، دلچسپ کی بات یہاں کی یہ ہے کہ یہاں ‘سیکولر’ چائے ملتی ہے ۔جو مستقل بنتی رہتی ہے اور ہزاروں لوگ پیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بڑے بڑے تھرمس میں لوگ چائے بناکر لاتے ہیں اور مظاہرین میں تقسیم کرتے ہیں۔کوئی انڈا تقسیم کرتا ہے ، کوئی بسکٹ لیکر آتا ہے ،بریانی کے 1800 پکیٹس تقسیم کرنے والے حسین احمد نے بتایا کہ میں اس کے ذریعہ مظاہرہ کرنے والی خواتین کو سلام کرتا ہوں اور اس کے ذریعہ ان کی حمایت کرنا مقصد ہے ۔ یہاں مکمل طور پر گنگا جمنی تہذیب کا نظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے ایک بینر پر اوم، اللہ، سکھ کا مذہبی نشان اور صلیب کا نشان ہے ۔کئی بینر اس طرح کے ہیں جس پر لکھا ہے کہ ‘نو کیش نو اکاؤنٹ’،۔ شاہین باغ میں دہلی یونیورسٹی سے سیجو اور ابھتسا چوہان، خوشبو چوہان بھی ہیں جو اپنی ٹیم کے ساتھ شاہین باغ خواتین کا حوصلہ بڑھانے کے لئے آئی ہیں۔ بابجے بجاکر اس سیاہ قانون کی مخالفت کر رہی ہیں۔