ویسٹ زون کے ایک پولیس اسٹیشن کا عجیب و غریب حال، خواتین کو تحفظ فراہم کرنے والی حکومت میں حیرت ناک واقعہ
حیدرآباد۔ /27 اکٹوبر، ( سیاست نیوز) ریاست تلنگانہ خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ اور ان کی خود مختاری میں مدد گار ریاست، گھریلو تشدد ہو یا پھر تعلیمی اداروں میں یا پھر کام کے مقامات پر ہو یا راستہ چلتے وقت کسی بھی مقام پر خواتین کے خلاف ہراسانی و مظالم کا سخت نوٹ لینے والی تلنگانہ پولیس ہے۔ لیکن اس ہونہار مثالی اور باصلاحیت پولیس سے وابستہ ایک خاتون پولیس کانسٹبل ان دنوں شدید ہراسانی کا شکار بن رہی ہے۔ کبھی نجی مسائل کے نام پر تو کبھی مستقبل کو تباہ کرنے کے نام پر اس خاتون کانسٹبل کو ہراسانی کی جارہی ہے۔ یہ ہراسانی کسی اور کی جانب سے نہیں بلکہ مبینہ طور پر اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے کی جارہی ہے۔ یہ خاتون کانسٹبل اپنی آپ بیتی بتاتے ہوئے بھی خوف کا شکار ہے۔ اسٹیشن کے اعلیٰ عہدیدار نے اس قدر خوف زدہ کردیا ہے کہ اس نے ملازمت چھوڑدینے کی ٹھان لی تھی۔ تاہم ایک ساتھی و مدد گار کی جانب سے ہمت افزائی اور پولیس کی اہمیت کو اس خاتون کانسٹبل کے ذہن میں دوبارہ اجاگر کرنے کے سبب اس نے فیصلہ بدل دیا جو دراصل آئی پی ایس بننا چاہتی ہے۔ بچپن سے ایک خواب اپنی آنکھوں میں سجائے اس نے انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی ۔ شہر کے معروف ویمن کالج سے اس نے انجینئرنگ مکمل کرنے کے بعد پولیس میں داخلہ کے لئے کانسٹبل کا امتحان لکھا اور کامیاب ہوئی جو سرویس میں موجود ہے اور سب انسپکٹر بننے کی تیاری کررہی ہے۔ یہ قصہ شہر کے ویسٹ زون سے وابستہ ایک پولیس اسٹیشن کا ہے۔ اس پولیس اسٹیشن میں اس خاتون کانسٹبل کے علاوہ دیگر تین خاتون کانسٹبل ہیں لیکن اس خاتون کو جان بوجھ کر ستایا اور پریشان کیا جارہا ہے۔ پہلے یہ خاتون رسپشن پر خدمات انجام دیتی تھی لیکن رسپشن سے ہٹاتے ہوئے پولیس اسٹیشن سے باہر کی ڈیوٹی دی جانے لگی بلکہ نائیٹ ڈیوٹی بھی کرنی پڑتی تھی اور نائیٹ ڈیوٹی کے بعد صبح جلد پولیس اسٹیشن طلب کرتے ہوئے رسپشن اور سسٹم ورک کروایا جاتا رہا جبکہ دوسری خاتون کانسٹبلس کو پرسکون ڈیوٹی دی گئی۔ جب اس خاتون کانسٹبل نے وضاحت طلب کی تو اس کو بتایا گیا کہ صاحب کی مرضی، تم پر ناراض ہیں اور پنشمنٹ ڈیوٹی کرنی پڑے گی۔ ایک دن اس خاتون کانسٹبل سے کہا گیا کہ تمہاری معطلی کے احکامات آئے ہیں اور وہ لیٹر صاحب کے پاس ہے، تمہاری زندگی کو آباد کرنا یا پھر برباد کرنا ہمارے ہاتھ ہے۔ اس خاتون کانسٹبل نے آفیسر سے کہا کہ نائیٹ ڈیوٹی پر خدمات انجام دینے سے اس کی لڑکی کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں۔ باوجود اس کے دیگر خاتون کانسٹبلس کے برخلاف اس خاتون سے انسپکٹر پر جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے کے الزامات ہیں۔ کمپیوٹرس میں مہارت اور انجینئر خاتون کانسٹبل سے بہتر خدمات کا حصول یقینی ہے لیکن نہ جانے اس ایس ایچ او کو آخر کس بات پر اعتراض اور اختلاف ہے اس کا پتہ نہیں بلکہ خاتون کانسٹبل مسلسل ذہنی اذیت کا شکارہے۔ ایک طرف پولیس کے اعلیٰ عہدیدار خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے مثالی اقدامات کررہے ہیں جس کی ملک بھر میں نظیر نہیں ملتی۔ یہاں شی ٹیم کام کرتی ہے، بھروسہ سنٹر ہے، اور منفرد اقدامات کئے جاتے ہیں۔ باوجود اس کے خود اسی محکمہ میں اس طرح کے عہدیدار بھی موجود ہیں جو اعلیٰ حکام اور سرکاری پالیسیوں کو بدنام کرنے کے اقدامات کررہے ہیں۔ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کو چاہیئے کہ وہ اس طرح کے واقعات کے تدارک کیلئے موثر اقدامات کرتے ہوئے اعتماد کو بحال کریں۔ ع
