خانگی اسکولس میں بھاری فیس وصولی

   

حیدرآباد ۔ 19 مارچ (سیاست نیوز) خانگی اسکولس میں پھر داخلوں کا عمل زوروشور کے ساتھ شروع ہوگیا ہے حالانکہ محکمہ تعلیم کی جانب سے احکام جاری کئے گئے ہیں کہ اسکولس کی جانب سے فیس میں گذشتہ سال کی فیس سے 10 فیصد سے زیادہ اضافہ کیا جائے تاہم کئی خانگی اسکولس 20 فیصد تک اضافہ کے ساتھ بھاری فیس چارج کررہے ہیں۔ حیدرآباد پیرنٹس اسوسی ایشن کے ممبرس نے خانگی اسکولس سے سوال کیا کہ ہر سال اسکول فیس میں اضافہ کرنے کی کیوں ضرورت ہوتی ہے۔ اگر وہ فیس میں اضافہ کررہے ہیں ہوں تو یہ منصفانہ ہونا چاہئے۔ ٹیوشن فیس اور ڈونیشن کے نام پر بھاری رقومات وصول کی جارہی ہیں۔ ایک اوسط درجہ کے اسکول میں بھی سالانہ 60 تا 80 ہزار روپئے فیس چارج کی جارہی ہے۔ کارپوریٹ اسکولس میں تو یہ ایک لاکھ روپئے سے زیادہ ہوتی ہے۔ اسوسی ایشن کے جوائنٹ سکریٹری وینکٹ سائی ناتھ نے کہا کہ تین سال کیلئے فیس کا تعین ہونا چاہئے کیونکہ خانگی اسکولس ہر سال فیس میں اضافہ کرتے ہیں اس کا تدارک ہونا چاہئے۔ حکومت کی جانب سے قائم کردہ فیس ریگولیشن کمیٹی ؍ سب کمیٹی صرف نام کی خاطر ہے کیونکہ اس کی جانب سے عوام کو لوٹنے والی خانگی اسکولس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے۔ ایک پیرنٹ نے کہا کہ ’’حال میں میرے بیٹے کا ایک اوسط درجہ کے اسکول میں داخلہ ہوا۔ مجھ سے 40,000 روپئے ٹرم I فیس ادا کرنے کیلئے کہا گیا بعد میں اسپیشل فیس کے نام پر مزید رقم چارج کی جاسکتی ہے‘‘۔ آصف حسین سہیل، صدر تلنگانہ پیرنٹس اسوسی ایشن نے کہا کہ محکمہ تعلیم کی جانب سے قائم کردہ سب کمیٹی صرف کاغذ کی حد تک ہے۔ خانگی اسکولس میں فیس کے نام پر بڑا ریاکٹ ہورہا ہے۔ خانگی اسکولس بھاری رقم چارج کررہے ہیں۔ اوسط درجہ کے اسکولس میں یو کے جی میں زیرتعلیم ایک طالب علم سے سالانہ فیس 60 ہزار روپئے وصول کی جاتی ہے لیکن اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے۔ اگر ریاستی حکومت اس سلسلہ میں قدم اٹھاتے ہوئے فیس کو باقاعدہ بنانے پر توجہ دے تو اولیائے طلباء کو بڑی راحت حاصل ہوگی۔