سرزمین دکن خاصی مردم خیز رہی ہے یہاں ایسے ایسے فنکار پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے شعبہ میں کمال حاصل کیا اور دنیا بھر میں شہرت و ناموری کی ایسی خیرہ کن مثالیں چھوڑیں جنکا تذکرہ کرتے ہوئے حیدرآبادیوں کو رشک ہوتا ہے۔ دکن میں گلوکاری کا شعبہ بھی اس سے خالی نہیں رہا کئی عظیم گلوکاروں نے اس سرزمین پر جنم لیا اور اور اپنے فن کی بلندی کو پہنچے۔ خان اطہر کا شمار بھی ایسے ہی گلوکاروں میں ہوتا ہے۔ جن کے تذکرے کے بغیر اس خطے کی گلوکاری کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی وقت تو بہرحال گذرتا جائیگا۔ حیدرآباد کی گلوکاری کی دنیا میں نت نئی آوازیں آتی جائیں گی لیکن عوامی مقبولیت اور محبت جو خان اطہر صاحب کو ملی تھی وہ شاید ہی کسی اور کو مل پائیگی کون جانتا تھا کہ صرف 4 سال کی عمر سے ہی گلوکاری کے میدان میں قدم رکھنے والے جناب دوست محمد خان کے فرزند امیر محمد خان اطہر ایک دن حیدرآباد کی موسیقی کی دنیا کا ایک ایسا کردار بن جائے گا جن کی آواز کے بغیر اسٹیج کے گیت اور موسیقی کے پروگرامس کی کامیابی مشکوک ہو جائے گی۔
خان اطہر نے موسیقی کی ابتدائی تربیت مرحوم اقبال قریشی ممتاز احمد، استاد مرزا عطا اللہ بیگ سے حاصل کی تھی اور مسلسل گائیگی کے ذریعہ 59 سال تک اسٹیج کی دنیا پر راج کرتے رہے۔ انہیں فلمی گیتوں کے علاوہ غزلوں اور حب الوطنی کے گیت پر عبور حاصل تھا ۔ وہ جے ڈی سی سیوا حیدرآباد اور سدبھاونا اسوسی ایشن حیدرآباد کے بانی تھے۔ انہیں اس بات کا منفرد اعزاز حاصل تھا کہ انہوں نے فلمی دنیا کے ہر بڑے فنکار کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے موسیقی کے پروگرامس کا اہتمام کیا ۔ بالخصوص محمد رفیع صاحب کے لئے انہوں نے پچھلے 39 برسوں سے ’’یاد رفیع‘‘ جیسا ہٹ پروگرام پیش کرتے ہوئے۔ ورلڈ ریکارڈ بھی بنایا تھا۔ وہ گلوکاری کے ذریعہ مختلف انداز میں راجکپور، اشوک کمار، گرودت، راجکمار، راجندر کمار، پردیپ کمار، فیروز خان غرض ہر اداکار کو خراج پیش کرتے رہے۔
یہی نہیں انہوں نے غزلیات کے پروگرامس جشن شاعر کے علاوہ مزاحیہ پروگرامس کاروان مزاح، دیڑھ متوالے، گدگدیاں، جیسے کئی اسٹیج پروگرامس کئے۔ انہیں ان کی عمدہ گلوکاری پر کئی ایک اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ بہترین آواز، سادہ مزاج اور عمدہ سلیقہ مند برتاو اور ملبوسات کے انتخابی پہناوے کی وجہ انہیں گلوکاری کے لئے بڑی سے بڑی محفلوں میں مدعو کیا جاتا تھا۔ انہوں نے شریمتی اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، سونیا گاندھی، نیلم سنجیواریڈی، گیانی ذیل سنگھ، ڈاکٹر شنکر دیال شرما سابق گورنرس کرشنا کانت، کمودبین جوشی، خورشید عالم خان، سابق چیف منسٹرس ٹی انجیا،۔ این ٹی راما راؤ، این بھاسکر راؤ، این چندرا بابو نائیڈو، ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی، غلام نبی آزاد اور شہنشاہ جذبات دلیپ کمار کے مقابل بھی اپنے فن کا جادو جگایا۔ خان اطہر نے کئی ممالک میں بے شمار کامیاب اسٹیج شوز پیش کئے۔ خان اطہر اپنی ذاتی اور پروفیشنل زندگی میں بے حد سنجیدہ تھے۔
قدرت نے ان کی آواز میں ایک مٹھاس دی تھی۔ اسی لئے لوگ انہیں بار بار سننا پسند کرتے تھے۔ اس طرح خان اطہر اپنی زندگی میں بے شمار اسٹیج پروگرامس اور اپنے چاہنے والوں سے کئے گئے معاہدوں کے ذریعہ کامیابی سے آگے بڑھتے رہے لیکن قسمت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔ آخر 13 ڈسمبر کی صبح ان کی زندگی کے سفر کی آخری صبح بن گئی۔ خان اطہر کے بارے میں جہاں تک میں جانتا تھا وہ بے لوث تھے وہ کسی مخصوص گروپ کے فنکار نہیں تھے۔ انہوں نے زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے عام و خاص کا اپنی گلوکاری سے دل بہلایا۔ وہ ایک زندہ دل انسان تھے۔ بہرحال دل والے ہی دل کے عارضہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ رہائش گاہ میں ہی ان کے قلب پر حملہ ہوا۔ حملہ اتنا شدید تھا کہ وہ اسپتال پہنچتے پہنچتے ہی جان کی بازی ہار گئے۔ اللہ ان کی مغفرت کرے اور ان کے افراد خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین