خدارا ہندوستان کی خوبصورتی کو مت بگاڑ نا

   

محمد ریاض احمد
ہندوستان میں گزشتہ 8 برسوں سے جو کچھ ہورہا ہے، اس سے ملک اور عوام کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ ساری دنیا میں ہمارے وطن عزیز کی بدنامی ہوئی۔ حد تو یہ ہے کہ زمانہ قدیم سے ہی علم و ہنر کے مرکز کی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھنے والے ہندوستان کے بارے میں خاص طور پر بیرونی ممالک کی حکومتوں، تنظیموں اور عوام کی فکر بھی تبدیل ہوگئی۔ اس کی سب سے اہم وجہ فرقہ پرستی کا بڑھتا رجحان ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی ہندوستان کی مثالی جمہوریت، اس کے دستور کی بالادستی، ہمارے ملک کی سکیولر روایات، اس کا سکیولرازم، گنگا جمنی تہذیب، انسانیت نوازی اور انسانیت دوستی کو شدید نقصان پہنچا۔ فرقہ پرستوں اور شرپسندوں کو طاقت و توانائی حاصل ہوئی، ایسی توانائی جس سے اُن لوگوں نے ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کی بجائے ملک و قوم کو تباہی و بربادی کی راہ پر لادیا ہے۔ مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کیا جارہا ہے۔ کبھی لو جہاد تو کبھی لینڈ جہاد کے نام پر مسلمانوں کو نقصان پہنچایا۔ فرقہ پرستی اور مسلمانوں سے دشمنی کی تمام حدود کو پار کرتے ہوئے فرقہ پرستوں نے یو پی ایس سی جہاد کا نعرہ بلند کرکے یہ بتانے کی کوشش کی کہ یو پی ایس سی کے ذریعہ مسلمانوں کو اہم محکمہ جات میں پہنچایا جارہا ہے جبکہ ان تمام الزامات کا حقیقت سے دور دور تک بھی واسطہ نہیں تھا اور نہ ہے۔ اگر آپ پچھلے آٹھ نو برسوں کے دوران ملک میں ہوئی ترقی کا جائزہ لیں گے تو پتہ چلے گا کہ ملک میں ترقی ضرور ہوئی ہے لیکن معاشی، تعلیمی، سماجی، صنعتی اور تجارتی شعبوں میں نہیں بلکہ غربت، بیماریوں، بڑے بڑے صنعت کاروں (اس بارے میں راہول گاندھی کا الزام ہے کہ حکومت نے اپنے حامی صنعت کاروں کے قرض معاف کئے) کے قرضوں کی معافی، فسادات، دنگوں، ہجومی تشدد کے واقعات، ان واقعات میں بے قصور مسلمانوں، دلتوں کی زندگیوں کا خاتمہ، خواتین و طالبات کی عصمت ریزی، ناانصافی، حقوق انسانی کی پامالی، جھوٹ و دروغ گوئی، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ یعنی مہنگائی، انتقامی سیاست کے رجحان، عوامی نمائندوں کی جانوروں کی طرح خرید و فروخت، منتخبہ ریاستی حکومتوں کو گرانے، مخالف و ناراض، ارکان اسمبلی، ارکان پارلیمان، صحافیوں و جہدکاروں کو مکاری و عیاری سے مرکزی ایجنسیوں سی بی آئی، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، آئی ٹی ڈپارٹمنٹ، این آئی اے (قومی تحقیقاتی ایجنسی) کے ذریعہ پھنسانے کے واقعات میں اضافہ ہوا، پٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں نے بھی عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ یہ بھی ترقی کی ایک قسم ہے۔ جی ڈی پی یا قومی مجموعی پیداوار اور ڈالر کے مقابل روپیہ کی قدر مسلسل گرتی جاری ہے۔ یہ بھی شاید ترقی ہو اب تو فرقہ پرست درندوں کو ہندو راشٹر کے نعرہ لگانے، اقلیتوں کو قتل عام کی دھمکیاں دینے، اسلام اور پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخیاں کرنے کی پوری پوری چھوٹ دی دے گئی ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بیرونی سرمایہ کار اور ہمہ قومی کمپنیاں بلکہ خاص کر ان ریاستوں میں سرمایہ مشغول کرنے سے گھبرا رہی ہیں جہاں فرقہ پرستی کا بول بالا ہو اور حیرت اس بات کی ہے کہ قوم پرستی کے نام پر ہمارے جنت نشان ہندوستان کو تباہ کیا جارہا ہے۔ آٹھ برسوں کے دوران جو عدالتی فیصلے آئے ہیں۔ ان پر بھی ماہرین قانون شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔ یاد رکھئے جہاں انصاف ختم ہوجاتا ہے، جھوٹ کا بول بالا ہوتا ہے، وہاں تباہی یقینی ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف ملک بھر میں نفرت پھیلانے کی جس طرح کوششیں کی جارہی ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود حکمراں پارٹی کے قائدین توہین مذہب کے مرتکب ہورہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ایم پی، ایم ایل اے، چیف منسٹر اور وزیر بننے کیلئے، توجہ حاصل کرنے کا آسان طریقہ اسلام، پیغمبر اسلامؐ اور مسلمانوں کے خلاف بکواس کو سمجھ لیا گیا ہے تب ہی نپور شرما، نوین جندال اور حیدرآباد کے ایک روڈی شیٹر ایم ایل اے نے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیاں کی ہیں۔ نپور شرما کو بی جے پی نے عالم اسلام کی برہمی کے پیش نظر پارٹی سے 6 سال کیلئے معطل اور نوین جندال کو برطرف کیا جبکہ روڈی شیٹر ایم ایل اے کو معطل کردیا۔ ساتھ ہی اسے نوٹس وجہ نمائی جاری کی گئی۔ آپ کو یاد دلادوں کہ ہجومی تشدد میں بے قصور مسلم نوجوانوں، کمسن بچوں، ادھیڑ اور بڑی عمر کے مردوں کو قتل کیا گیا، سی اے اے کے ذریعہ مسلمانوں سے ناانصافی کی گئی، اس شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے پر درجنوں مسلم نوجوانوں کے سروں اور سینوں میں گولیاں اُتاری گئیں۔ مسلمانوں کی املاک کو لوٹا گیا، خواتین کی عصمتوں پر ہاتھ ڈالے گئے۔ طلاق ثلاثہ وغیرہ پر قانون سازی کرتے ہوئے شریعت میں مداخلت کے دروازے کھولنے کی کوشش کی گئی، بڑی بے شرمی و بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مختلف شعبوں سے وابستہ مسلم خواتین کی آن لائن بولی لگائی گئی۔ مسلمانوں کو ناانصافی، تعصب و جانبداری کا نشانہ بنایا گیا، ان تمام ناپسندیدہ واقعات پر عالم اسلام نے خاموشی اختیار کی ۔ ہندوستانی مسلمان بھی خاموش بیٹھا رہا لیکن پیغمبر اسلام کی شان میں فرقہ پرست کتوں نے اپنے آقاؤں کے حکم اور ان کے اشاروں پر گستاخیوں کا جب ارتکاب کیا تو سارا عالم اسلام اُٹھ کھڑا ہوا۔ سارے ہندوستانی مسلمان برہم ہوگئے جس کے نتیجہ میں نپور شرما جیسے گستاخوں کی زندگی عذاب بن گئی۔ حیدرآباد میں بھی منگل ہاٹ کے روڈی شیٹر نے ایک ویڈیو کے ذریعہ پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی جسے اب پی ڈی ایکٹ کے تحت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا گیا ہے۔ بہرحال ان تمام واقعات سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ہر فرقہ پرست کتا ہیرو بننے کا خواہاں ہے۔ راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے، اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ اس کیلئے وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کو ایک فیشن بنا چکے ہیں۔ یہ ایسا فیشن ہے، اگر اس پر روک نہیں لگائی گئی، اس کے خلاف توہین مذہب کا قانون مدون نہیں کیا گیا تو پھر یہی فیشن ملک کو تباہ و برباد کردے گا اور اس کے ذمہ دار صرف اور صرف فرقہ پرست عناصر ہوں گے۔آج ملک میں جو نام نہاد قوم پرست عناصر ہیں، وہ عوام کو جس طرح مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے اور ہندوستان کی جمہوری و سکیولر شناخت مٹانے پر تلے ہوئے ہیں، وہ انسان نہیں درندہ صفت انسان ہیں بلکہ جانور سے بھی بدتر ہیں۔ ہاں راقم الحروف آپ کو بتا رہا تھا کہ ہندوستان میں توہین مذہب کے خلاف کوئی قانون نہیں جس کا فائدہ اُٹھاکر فرقہ پرستی کی ڈرینج میں پرورش پارہے کچھ کیڑے گستاخیوں کا ارتکاب کررہے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس طرح بھونکنے والے سماجی و سیاسی خبیثوں کیلئے تعزیرات ہند کی مختلف دفعات جیسے 296، 295A، 295، 297، 298 اور 154 موجود ہیں جن کے تحت خاطی پائے جانے پر ایک سال تا تین سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت توہین مذہب قانون متعارف کروانا نہیں چاہتی جبکہ آج ہندوستان کو اس قانون کی شدید ضرورت ہے۔ ہاں! ریاست پنجاب میں مذہبی کتب کی بے حرمتی سے نمٹنے کیلئے قانون موجود ہے۔ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ ساری دنیا میں توہین مذہب قوانین بنائے جانے کی ضرورت ہے۔
[email protected]